رسائی کے لنکس

سیلاب نے پاکستان ریلوے کی بھی کمر توڑ دی


پاکستان ریلوے
پاکستان ریلوے

پاکستان ریلوے حکومت پاکستان کا وہ محکمہ ہے جسے کوئی سفید ہاتھی کہہ کر پکارتا ہے تو کوئی اسے معیشت پر بوجھ قرار دیتا ہے ۔ بجٹ خسارہ، معاشی بحران، نئے روٹس پر بندش اور پرانے روٹس کی معطلی اس محکمے کی کارکردگی سے جڑے ایسے الفاظ ہیں جو اسے "بے چارہ" ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اور اب تو سیلاب نے رہی سہی کسر پوری کرتے ہوئے اس کی کمر ہی توڑ دی ہے۔ ہوسکتا ہے دوسرے محکمے سیلاب کی تباہ کاریوں سے کچھ عرصے بعد نکل آئیں مگر ریلوے کو سنبھلتے سنبھلتے کئی برس لگ جائیں گے۔

سیلاب نے کئی سو کلومیٹر تک ریلوے لائینوں کویا تو جڑسے اکھاڑ پھینکا ہے یا وہ اس قابل ہی نہیں رہیں کہ ان پر بے خوف وخطر ریل دوڑائی جاسکے۔ گو کہ محکمے کے ترقیاتی بجٹ پرحکومت نظر ثانی کررہی ہے مگرریلوے کے ایک عہدیدار کے مطابق ریلوے ان سرکاری محکموں میں سرفہرست ہوگا جو سیلاب کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

انتیس جولائی کو جس وقت سیلاب آیا اس سے دو ماہ پہلے یعنی مئی میں محکمے نے آٹھ ٹرینیں بند کرنے کے احکامات جاری کئے تھے جبکہ جون میں مزید چھ ٹرینیں بند کردی گئیں جن میں تیز رو اور شالیمار جیسی بڑی ٹرینیں بھی شامل تھیں ۔ ان ٹرینوں کی بندش کے وقت جنرل منیجر ریلوے اشفاق خٹک نے کہا تھا کہ حکومت ریلوے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتی ہے لہذا جو ٹرینیں منافع کا باعث نہیں انہیں بند کیا جارہا ہے تاکہ خسارے پر کنٹرول کیا جاسکے۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوا۔ دو ماہ کے اندر تیرہ ٹرینوں کی بندش کے باوجود ریلوے کو خسارے سے نجات نہیں ملی۔

جون جولائی کی بارشوں نے پنجاب اور اندرون ملک چلنے والی ٹرینوں کو مزید خسارے سے دوچار کیا۔ شدید بارشوں کے سبب متعدد ٹرینیں راستے میں ہی کھڑی کردی گئیں۔ ریلوے لائنیں مکمل طور پر پانی میں ڈوب جانے کی وجہ سے ایک طرح سے پہیہ جام ہوگیا اور ٹرینیں مقررہ وقت سے دس دس اوربارہ بارہ گھنٹے لیٹ ہونے لگیں۔ ظاہر ہے اس پوزیشن میں مسافروں کو متبادل ذرائع آمد ورفت کا سہارا لینا پڑا اور یوں ریلوے کے نصیب میں ایک مرتبہ پھر خسارہ لکھا گیا۔

محکمہ خزانہ نے حکومتی نگرانی میں چلنے والے اداروں کو اس بات سے آگاہ کرنا شروع کردیا ہے کہ انہیں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام(پی ایس ڈی پی) میں رکھے گئے بیشتر فنڈ نہیں مل سکیں گے۔ پی ایس ڈی پی کے تحت پاکستان ریلوے کو انتیس مختلف منصوبوں کے لئے تیرہ ارب روپے سے زیادہ کی رقم ملنا تھی۔ اور امکان ہے کہ محکمہ خزانہ اب یہ رقم ریلوے کو نہیں دے گا۔

سیلاب سے ریلوے کو کتنا نقصان پہنچا حکام ابھی اس سلسلے میں کچھ بتانے یا اعدادو شمار ظاہر کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کہنا ہے کہ جب تک تمام پانی سمندر میں نہیں سما جاتا تب تک تخمینہ لگانا مشکل ہے۔

سیلابی پانی سے قبل ریلوے ،سخت تنقیدوں کے سیلاب میں گھرا ہوا تھا ۔ محکمہ کے وزیر حاجی غلام احمد بلور نے فنڈز کی کمی کا سہارا لیتے ہوئے ایک سو بیس ٹرینیں بند کرنے کا حکم دیا تھا ۔ا ن کا کہنا تھا کہ محکمے کو پچاس سے ساٹھ انجنوں کی شدید کمی کا سامنا ہے جبکہ دو سو کے قریب کوچز درکار تھیں۔ ان میں سے ایک سو انتالیس کوچز کی کمی یوں پوری کی گئی کہ جو ٹرینیں (حاجی غلام احمد بلور کے مطابق) خسارے میں جارہی تھیں وہ بندکردی گئیں۔ حالانکہ اس سے قبل جب شیخ رشید وزیر ریل تھے انہوں نے متعدد روٹس پر نئی ٹرینوں کا افتتاح اپنے ہاتھوں سے کیا تھا۔

انجنوں کی کمی کو دور کرنے کے لئے حکومت نے حال ہی میں ایک چینی کمپنی ڈونگ فینگ الیکٹرک کارپوریشن سے پچھتر انجن خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے وقت دوہزار سات میں ہونے والے ہنگاموں میں پینسٹھ انجنوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔

وفاقی وزیر ریلوے کے مطابق انیس سو اکیانوے میں ریلوے کا خسارہ پانچ ارب باون کروڑ روپے تھا جبکہ اب یہ خسارہ بڑھتے بڑھتے نوے ارب روپے ہوگیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

موجودہ ریلوے نظام اور پٹڑیوں کو اٹھارہ سو اکسٹھ میں بچھایا گیا تھا ، اس کی معیادی عمر سو سال تھی جبکہ اب اسے ڈیڑھ سو سال ہوچکے ہیں۔ اس دوران بہت کم ٹریکس بچھائے گئے ۔ اب یہ ٹریکس بھی نہایت پرانے اور بوسیدہ ہوچکے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ریلوے ٹریکس کو سیاسی داو پیچ سے بھی بہت بڑے پیمانے پر نقصان پہنچتا رہا ہے۔ اکثر حکومتی ارکان ووٹ بینک کی خاطر چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں پر ریل کے اسٹاپس بنادیتے ہیں پھر جب دوسرا رکن منتخب ہوکر آتا ہے تو یہ اسٹیشن ختم کرکے اپنی پسند کے علاقے میں ایک اور اسٹیشن بنادیتا ہے اور یوں بار بار اسٹیشنوں کی تبدیلی سے کروڑوں روپے ضائع ہوجاتے ہیں اور بے چارہ ریلوے کا محکمہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے ہوتے دھڑام سے گر جاتا ہے۔

اس تمام صورتحال کے باوجود کہیں کا بھی ٹکٹ آسانی سے بک نہیں ہوتا اور کہایہ جاتا ہے کہ سب فل ہے ۔ اگر ٹرینیں اتنی ہی فل ہیں تو خسارہ کیوں ہوتا ہے؟ یہ کوئی بتانے کے لئے تیار نہیں۔ پھر ٹکٹوں کی بلیک مارکیٹنگ، ریلوے کی زمینوں پر قبضے، ٹھیکوں میں بدعنوانی، دن رات بڑھتے جرائم ، بھتہ مافیا اور ٹرینوں کا مقررہ وقت پر نہ پہنچنا ۔۔۔ یہ سب ریلوے کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں اور ان کی موجودگی میں اس صدی میں تو کیا کئی صدیوں تک بھی ریلوے کو خسارے سے منافع بخش کاروبار میں بدلہ نہیں جاسکتا۔

XS
SM
MD
LG