رسائی کے لنکس

ضلع ٹھٹھہ کے تین شہر زیرِ آب آنے کا خدشہ، لاکھوں بے گھر


بدھ کی رات ضلع ٹھٹھہ میں کوٹ عالموں کے مقام پر دریائے سندھ کےسورجانی بند میں پڑنے والا شگاف ڈیڑھ سو فٹ تک چوڑا ہوگیا ہے جس سے نکلنے والا سیلابی پانی ضلع کی تین بڑی شہری آبادیوں میر پور بٹھورو، دڑو اور سجاول کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سیلابی ریلے سے بند کے کئی مضافاتی دیہات پہلے ہی زیرِ آب آچکے ہیں جبکہ دیگر قریبی علاقوں سے آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی جاری ہے۔

دریائے سندھ میں طغیانی کے باعث ضلع ٹھٹہ کے کچے کے سینکڑوں دیہات زیرِآب آجانے کے بعد اب سیلابی ریلہ ضلع کے تین بڑے شہروں کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں سے آبادی کی ہنگامی نقل مکانی شروع ہوگئی ہے۔

بدھ کی رات ضلع ٹھٹھہ میں کوٹ عالموں کے مقام پر دریائے سندھ کےسورجانی بند میں پڑنے والا شگاف ڈیڑھ سو فٹ تک چوڑا ہوگیا ہے جس سے نکلنے والا سیلابی پانی ضلع کی تین بڑی شہری آبادیوں میر پور بٹھورو، دڑو اور سجاول کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سیلابی ریلے سے بند کے کئی مضافاتی دیہات پہلے ہی زیرِ آب آچکے ہیں جبکہ دیگر قریبی علاقوں سے آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی جاری ہے۔

ڈی سی او ٹھٹھہ منظور شیخ کے مطابق ممکنہ متاثرہ علاقے سے چار لاکھ افراد کا انخلاء کیا جارہا ہے اور علاقہ خالی کرنے کی وارننگ جاری کردی گئی ہے۔ ڈی سی او کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ پہلے ہی کچے کے 400 سے زائد دیہات سے ایک لاکھ کے قریب افراد کا انخلا مکمل کرچکی ہے، جن کی اکثریت انتظامیہ کی جانب سے قائم 160 سے زائد ریلیف کیمپوں میں مقیم ہے۔

علاقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی منتخب رکنِ صوبائی اسمبلی حمیرا علوانی نے کہا ہے کہ ٹھٹہ ضلع کے تمام سرکاری اسکولوں کو خالی کرالیا گیا ہے تاکہ وہاں متاثرینِ سیلاب کو ٹہرایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھٹہ شہر پر قریبی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کا شدید دبائو ہے اور انتظامیہ کی جانب سے ٹھٹہ سے کراچی تک واقع سرکاری اسکولوں میں امدادی کیمپ قائم کیے جارہے ہیں۔ علوانی کا کہنا تھا کہ اس وقت ضلعی انتظامیہ کو ہیلی کاپٹرز کی اشد ضرورت ہے تاکہ متاثرہ علاقوں میں پھنسے سیلاب زدگان کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاسکے۔

حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے ایک اور صوبائی رہنما تاج حیدر کا کہنا ہے کہ ٹھٹھہ کے ڈیڑھ لاکھ متاثرینِ سیلاب کو کراچی میں قائم کیے گئے کیمپوں میں منتقل کیا جائے گا۔

متاثرہ علاقوں سے عوام کی بڑی تعداد ٹھٹہ شہر کی جانب نقل مکانی کر رہی ہے اور ٹھٹہ-سجاول پل پر اس وقت شدید ٹریفک جام ہے جہاں نقل مکانی کرنے والوں کی ہزاروں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔

دڑو، میر پور بٹھورو، سجاول اوربنوں شہروں کو زیرِ آب انے سے بچانے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے لوپ بند میں شگاف ڈال دیا گیا ہے جبکہ سیلابی پانی کا زور توڑنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے کوٹ عالموں ہی کے مقام پر شگاف کے مخالف سمت میں واقع حفاظتی بند کو ایک اور کٹ بھی لگایا جارہا ہے جس سے آبپاشی حکام کے مطابق کچے کا وسیع علاقہ فوری طور پر زیرِ آب آجائے گا۔

تاہم ان تمام اقدامات کے باوجود پانی کا دبائو کوٹ عالموں کے شگاف پر کم نہیں ہو پارہا اور انتظامیہ کی جانب سے شگاف پر کرنے کی کوششوں کے باوجود بند میں تیزی سے کٹائو جاری ہے۔ ضلع میں ریلیف کی سرگرمیوں کے سرکاری انچارج ہادی بخش کلہوڑو کا کہنا ہے مذکورہ تینوں شہروں کے زیرِ آب آنے کا خدشہ صرف اسی صورت میں ہے کہ اگر انتظامیہ بند میں پڑنے والا شگاف بروقت پر کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی۔

پانی کے دبائو کے سبب لوپ بند میں پڑنے والے ایک اور شگاف سے سیلابی ریلہ تیزی سے کوٹ عالموں اور لائق پور کی آبادیوں کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں سے رہائشیوں کا انخلاء جاری ہے۔

پاک فوج کے علاقے میں جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل شوکت اقبال نے کہا ہے کہ سورجانی بند سے سیلابی پانی سجاول، میرپور بٹھورو اور دڑو پہنچنے میں پانچ سے چھ گھنٹے لے گا۔ بند کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمام آبادی کو فوری طور پر شہر وں سے نکالا جارہا ہےاور انتظامیہ کی پہلی ترجیح لوگوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فی الحال زمینی راستوں سے لوگوں کا انخلا کیا جارہا ہے تاہم پانی آبادیوں میں داخل ہوجانے کے بعد پیچھے رہ جانے والے افراد کو کشتیوں کے ذریعے نکالا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج کی انجینئرنگ کور بند پر موجود ہے اور شگاف سے باہر آنے والے سیلابی ریلے کی فضائی نگرانی بھی کی جارہی ہے۔ شوکت اقبال کے مطابق اگر شگاف بروقت پر نہ کیا جاسکا یا سیلابی ریلے کا رخ نہ موڑا گیا تو ٹھٹہ ضلع کے ساتھ واقع ضلع بدین کی تحصیلوں گولارچی اور بدین شہر کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔

بالائی سندھ کی صورتحال

بالائی سندھ کے شہر شہدادکوٹ کے نزدیک سے گزرنے والے سیم نالے میں بڑا شگاف پڑ جانے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے آبادی کو شہدادکوٹ شہر خالی کرنے کی آخری وارننگ جاری کردی گئی ہے۔ سیم نالے سے نکلنے والا ریلہ اس وقت شہر کے مضافات میں تین کلومیٹر کے فاصلے پہ موجود دیہات تک پہنچ چکا ہے اور شہدادکوٹ میں باقی رہ جانے والی آبادی کی اکثریت لاڑکانہ کی طرف نقل مکانی کر رہی ہے۔ شہر کی ایک لاکھ کی آبادی کا بیشتر حصہ سیلاب کی پہلے جاری ہونے والی وارننگز کے باعث پہلے ہی نقل مکانی کرچکا ہے۔

دوسری جانب شہدادکوٹ کو دریائے سندھ کے توڑی بند میں پڑنے والے شگاف سے آنے والے سیلابی ریلے سے بچانے کے لیے شہر کے باہر تعمیر کیے گئے عارضی بند پرپانی کا شدید دبائو برقرار ہے۔ سیلابی ریلے کا رخ ضلع کے ایک اور بڑی آبادی قبو سعید خان کی طرف کیا گیا تھا جو کہ مکمل طور پر زیرِ آب آچکا ہے، تاہم علاقے کی نوے فیصد سے زائد آبادی کا بروقت انخلاء مکمل کرلیا گیا تھا۔ ڈی سی او قنبر شہدادکوٹ یسین شر کا کہنا ہے کہ قبو سعید خان کے 25 کے قریب نواحی دیہات میںپھنسے سینکڑوں افراد کو ہیلی کاپٹرز اور کشتیوں کے ذریعے متاثرہ علاقے سے نکالا جارہا ہے۔

دوسری جانب ایک اور بڑا سیلابی ریلہ بالائی سندھ کے اضلاع لاڑکانہ اور شکارپور کی آبادیوں رتو ڈیرو اور گڑھی یسین میں داخل ہوجانے کے بعد اب نوڈیرو اور گڑھی خدا بخش کی جانب بڑھ رہا ہے جہاں سابق وزیرِاعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو، انکی صاحبزادی اور سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو اور دیگر اہلِ خانہ کے مزارات موجود ہیں۔

XS
SM
MD
LG