رسائی کے لنکس

ٹھٹھہ میں تباہی کے بعد سیلابی ریلا سمندر میں داخل ہونے کے قریب


مقامی سرکاری عہدیدارہادی بخش کلہوڑو کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ میں سیلابی ریلے سے پیر کو دیر گئے جاتی اور چوہڑ جمالی کے علاقے زیر آب آگئے۔ البتہ حکام نے ٹھٹھ شہر کو محفوظ قرار دے دیا ہے جس کے بعد یہاں لوگوں کی واپسی تیزی سے جاری ہے۔ سیلاب کے خطرے کے پیش نظر ٹھٹھہ کی تقریباً تین لاکھ آبادی کا بیشتر حصہ محفوظ مقامات پر منتقل ہو گیا تھا۔

صوبہ سندھ میں بڑے پیمانے پر تباہی برپا کرنے کے بعد سیلابی ریلا سمندر کی جانب بڑھ رہا ہے اور فی الحال مزید کسی آبادی کے اس کی زد میں آنے کے امکانات نہیں ہیں۔

پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب کا آغاز گذشتہ ماہ کے اواخر میں شمال مغربی صوبہ خیبر پختون خواہ میں مون سون سلسلے کی غیر معمولی بارشوں سے ہوا تھا اور تقریباً پانچ ہفتے گزر جانے کے بعد اس قدرتی آفت سے ملک کا تقریباً 20 فیصد علاقہ متاثر ہو چکا ہے۔

سرکاری عہدیداروں کے مطابق حالیہ تباہ کن سیلاب سے دو کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں جو ملک کی کل آبادی کا لگ بھگ 12 فیصد بنتے ہیں، جب کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 1,600 سے زائد ہے۔

سیلاب نے سب سے زیادہ تباہی صوبہ سندھ میں مچائی ہے جہاں 23 اضلاع میں سے 19 اس کی زد میں آئے ہیں۔ اس صوبے میں سیلاب سے متاثر ہونے والا آخری ضلع ٹھٹھہ ہے۔

مقامی سرکاری عہدیدارہادی بخش کلہوڑو کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ میں سیلابی ریلے سے پیر کو دیر گئے جاتی اور چوہڑ جمالی کے علاقے زیر آب آگئے۔ البتہ حکام نے ٹھٹھ شہر کو محفوظ قرار دے دیا ہے جس کے بعد یہاں لوگوں کی واپسی تیزی سے جاری ہے۔ سیلاب کے خطرے کے پیش نظر ٹھٹھہ کی تقریباً تین لاکھ آبادی کا بیشتر حصہ محفوظ مقامات پر منتقل ہو گیا تھا۔

پنجاب کے مختلف علاقوں سے پانی اترنے کے بعد بے گھر ہوئے افراد کے اپنے گھروں کو لوٹنے کا عمل جاری ہے، لیکن سرکاری حکام اور امدادی سرگرمیوں میں شریک غیر سرکاری تنظیمیں امداد کی تقسیم اور متاثرہ علاقوں میں بحالی کے عمل کو ایک بڑا چیلنج قرار دے رہی ہیں۔

منگل کے روز دارالحکومت اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار مارٹن موگونجا نے بتایا کہ سیلاب زدگان کی اکثریت جلد از جلد گھروں کو لوٹ کر اپنی زندگیاں دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔ انھوں نے ان افراد کی واپسی پر ان کے لیے بنیادی سہولیات کی دستیابی پر بھی زور دیا۔

اقوام متحدہ لاکھوں سیلاب زدگان کو ہنگامی امداد کی فراہمی پر زور دے رہی ہے اور عالمی تنظیم کے حکام نے متنبہ کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں غذائی قلت کا شکار تقریباً 72 ہزار بچوں کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ان کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

عالمی ادارہ خوراک ڈبلیو ایف پی کی عہدیدارجوسے شیرن نے کہا ہے کہ ان کا ادارہ سیلاب زدہ علاقوں میں 30 لاکھ ایسے افراد کو ایک ماہ کا راشن مہیا کر چکا ہے جن کو اس کی اشد ضرورت تھی البتہ اتنی ہی تعداد میں افراد کو خوراک پہچانا باقی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی عہدیدار اِیرینا بوکووا کا کہنا تھا کے بحالی کے عمل میں تعلیم کے شعبے پر خاص توجہ دینی ہوگی اور ان کا ادارہ پاکستان میں ایک ہزار اساتذہ کو تربیت فراہم کرے گا جو سیلاب زدہ علاقوں میں خدمات سر انجام دیں گے۔

عالمی ادارے نے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہنگامی طور پر نمٹنے کے لیے رواں ماہ 46 کروڑ ڈالر کی عالمی اپیل کی تھی جس کا تقریباً 64 فیصد اس کو موصول ہو چکا ہے جب کہ مزید چار فیصد کی یقین دہانی کرائی جا چکی ہے۔ عالمی تنظیم کے حکام نے کہا ہے کہ حالیہ چند روز کے دوران مختلف ممالک کی جانب سے عطیات کی فراہمی سست روی کا شکار ہے۔

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے جین موریس ریپرٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ 19 ستمبر کو امریکہ کے شہر نیو یارک میں عالمی تنظیم کے اجلاس میں پاکستان میں جاری سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے گا جس کے بعد امدادی اپیل میں بھی نظر ثانی کی جائے گی۔ ریپرٹ کا کہنا تھا کہ اس مشکل گھڑی میں پاکستان اکیلا نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری اس کے ساتھ ہے۔

XS
SM
MD
LG