رسائی کے لنکس

،امریکی امداد کے استعمال کےلیے منصوبہ بندی کی کمی،


،امریکی امداد کے استعمال کےلیے منصوبہ بندی کی کمی،
،امریکی امداد کے استعمال کےلیے منصوبہ بندی کی کمی،

اندرونِ ملک دہشت گردوں کے حملوں اور ان کے خلاف کاروائیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے اخراجات پورے کرنے اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے پاکستان کو امریکہ اور دیگر ممالک اور عالمی اداروں کی جانب سے بڑی رقوم امداد کے طور پر دی گئی ہیں یا ان کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مقامی اور عالمی ادروں میں بہتر تعاون کے ذریعے ان رقوم سے کیسے بہتر نتایج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اور متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی توقعات کیا ہیں؟ فاؤنڈیشن فار انٹیگریٹڈ ڈیولپمنٹ ایکشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر فیصل علی خان نے واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل میں اس حوالے سےاپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے متاثرہ پاکستانی علاقوں کی آبادی کی بڑی تعداد یہ سوچ رکھتی ہے کہ یہ امداد متاثرہ علاقوں کے عوام کے لیے ہے مگر انہیں اس کا براہ راست کوئی فائدہ حاصل نہیں ہورہا ،سوائے اس کے کہ انہیں چند اشیاء ضرورت دے دی گئی ہیں۔

فیصل علی خان کا کہناتھا کہ قبائلی علاقوں میں رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ مگر شاید اس کی زیادہ تشہیر نہیں کی جارہی اور وہ نظر نہیں آ رہی۔ کروڑوں ڈالروں صرف کر کے سڑکیں بنائی جا رہی ہیں۔ مگر اس سے اچھا تاثر حاصل نہیں کیا جا سکا ہے اور میرا خیال ہے کہ عام آبادی تک پیغام نہیں پہنچایا جا رہا۔

شجاع نواز اٹلانٹک کونسل میں جنوبی ایشائی امور کے ماہر ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ کیری لوگر بل کی امدادی رقم یا پاک افغان سرحدی علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ROZ’s کی طرح کے دوسرے ترقیاتی پراجیکٹس شروع نہ ہو سکنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں منصوبے ہی موجود نہیں ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ مجھے جو مسئلہ نظر آتا ہے ،وہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں ضروری تیاری نہیں کی گئی جو پاکستان کی ذمہ داری ہے نہ کہ امداد فراہم کرنے والوں کی۔ جب تک پاکستان مؤثر طریقے سے رقم استعمال کرنے کے لیے تیار نہ ہو، امداد ی ادارے اسے رقم فراہم نہیں کریں گے۔

اعلان کردہ رقوم کی فراہمی میں تاخیرکا عام آبادی پر کیا اثر ہوتا ہے، اس حوالے سے وائس آف امریکہ کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال پر فیصل علی خان نے کہا کہ جہاں تک امداد کے وعدوں کا تعلق ہے۔ میرا خیال ہے کہ بعض دفعہ امدادی رقوم کا اعلان کے عوام پر منفی اثرات بھی پڑتے ہیں کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ رقم فوراً مل جائے گی۔ کیونکہ انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ کہ فنڈز کی منتقلی ایک کتنا پیچیدہ عمل ہے۔

فیصل علی خان نے پاکستانی میڈیا کو عوام میں مایوسی اور منفی خیالات پیدا کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے کہا کہ پاکستانی میڈیا نے ان مسائل کو سامنے لانے کے حوالے سے کافی منفی کردار ادا کیا ہے۔کیونکہ وہ مثبت پہلووں پر بات نہیں کرتے۔ حتی کہ جب ہم امدادی کام کر رہے تھے اس دوران یہ بتانے کے بجائے کہ یہاں ایک اچھا کام ہو رہا ہے اور یہاں مقامی لوگ یہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے صرف اس پر فوکس کیا کہ جہاں ایک دو ایسے واقعات ہو ئے کہ پولیس آئی اور اس نے پناہ گزینوں پر ڈنڈے برسائے، اور تمام کیمرے اسی پر فوکس ہوگئے۔

فیصل علی خان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں تعلیم کے حصول کے لیے سوچ تبدیل ہو چکی ہے اور اب بیشتر خاندان نہ صرف لڑکوں بلکہ لڑکیوں کی تعلیم کے بھی حق میں ہیں کیونکہ وہ یہ جان چکے ہیں کہ ان کی ترقی اور خوشحالی تعلیم سے وابستہ ہے۔

XS
SM
MD
LG