رسائی کے لنکس

افغانستان سے فوجی انخلاء 2014ء تک مکمل ہوگا


افغانستان سے فوجی انخلاء 2014ء تک مکمل ہوگا
افغانستان سے فوجی انخلاء 2014ء تک مکمل ہوگا

امریکہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کی لڑاکا افواج کا انخلاء 2014 ء تک مکمل ہو جائے گا اور سکیورٹی کی ذمہ داریوں کی افغانوں کو منتقلی کا یہ عمل آئندہ سال جولائی کے وسط سے شروع ہوگا۔

امریکہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک صحافیوں کے ساتھ مذاکرے میں گفتگو کرتے ہوئے
امریکہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک صحافیوں کے ساتھ مذاکرے میں گفتگو کرتے ہوئے

اتوار کو اسلام آباد میں ریڈیو پاکستان کے زیر اہتمام صحافیوں کے ساتھ ایک مذاکرے میں انھوں نے اعتراف کیا کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بارے میں خطے میں ابہام پایا جاتا ہے ۔

امریکی صدر براک اوباما نے اعلان کر رکھا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا عمل جولائی 2011 ء سے شروع کیا جائے گا ۔ لیکن خطے کے لیے خصوصی ایلچی ہالبروک کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی فوج کا جنگی مشن 2014ء سے پہلے ختم ہونے کا امکان نہیں۔ اُنھوں نے واضح کیا کہ ملک کی سکیورٹی کا انتظام افغان فوج اور پولیس کو منتقل کرنے کی امریکی حکمت عملی پسپائی نہیں ہے۔

مسٹر ہالبروک نے یہ بیان ایک ایسے روز دیا ہے جب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے ایک انٹرویو میں صدر حامد کرزئی نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی عسکری کارروائیوں اور ان کی شدت میں کمی کرے۔ مزید برآں افغان صدر نے کہا ہے کہ وہ مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف رات کے وقت امریکی فوجی حملوں کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں جو امریکہ کے خیال میں شورش کے انسداد کی حکمت عملی کا ایک اہم جز وہے۔

امریکہ کے خصوصی ایلچی ہالبروک کے بقول یہ بات قابل فہم ہے کہ صدر کرزئی اپنے ملک کی مکمل خودمختاری افغان عوام کے ہاتھوں میں واپس دینے کے خواہا ں ہیں اور امریکہ بھی اُن کے اس مقصد سے اتفاق کرتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ افغان عوام اور خود صدر کرزئی کی حکومت کو طالبان جنگجوؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے سخت فوجی اقدامات ناگزیر ہیں جن میں توازن کو برقرار رکھنے کے لیے احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔

امریکہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک
امریکہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک

رچرڈ ہالبروک نے کہا کہ 1989ء میں افغانستان سے روسی افواج کے انخلاء کے بعد امریکہ نے بھی افغانستان میں دلچسپی ختم اور خطے کو خیرباد کہہ دیا اور یہ پالیسی ستمبر 2001 ء میں امریکہ پر دہشت گرد حملوں کا سبب بنی لیکن اس مرتبہ امریکہ ماضی کی غلطی کو نہیں دہرائے گا۔

امریکی ایلچی کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے برعکس افغانستان میں طالبان کے ساتھ کسی طرح کے مذاکرات نہیں ہور رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ مفاہمت کے لیے محدود پیمانے پر رابطے ہوئے ہیں لیکن انھیں مذاکرات کا نام نہیں دیا جاسکتا۔

امریکہ کے خصوصی ایلچی نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کافیصلہ خود پاکستانی فوج نے اپنی جنگی حکمت عملی کو سامنے رکھ کر کرنا ہے ۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ پاکستانی فوج کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ دوسرے علاقوں میں صورت حال کو مستحکم کیے بغیر ایک نیا محاذ کھولنے کے لیے اس کے پاس وسائل کی کمی ہے۔

XS
SM
MD
LG