رسائی کے لنکس

قصاص و دیت کے قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے: قانون ساز


سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ قانون کے غلط استعمال کے باعث غیرت کے نام پر قتل کے اکثر ملزمان سزاؤں سے بچ جاتے ہیں جب کہ مفتی منیب کے بقول قانون پر مکمل نفاذ ہی اس مسئلے کا حل ہے۔

غیرت کے نام پر قتل میں سزا نہ ہونے کی بڑی وجہ قصاص و دیت کے قانون کا غلط استعمال، سینیٹر فرحت اللہ بابر، ترامیم کی بجائے قوانین کا موثر نفاذ ہی مسئلے کاحل ہے، مفتی منیب الرحمن

پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن حالیہ مہینوں میں ایسے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

حقوق انسانی اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظمیں یہ کہتی آئی ہیں کہ ملک میں عورتوں پر تشدد کے واقعات کو روکنے کے لیے قانون پر موثر عملدرآمد ناگزیر ہے۔

حقوق نسواں کی غیر جانبدار تنظیموں کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے جب کہ ان واقعات میں ملوث ملزمان میں سے بہت ہی کم ایسے ہوتے ہیں جنہیں سزائیں دی جاتی ہوں۔

حزب مخالف کے ایک قانون ساز فرحت اللہ بابر کے نزدیک غیرت کے نام پر قتل کے ملزمان کو سزائیں نہ ہونے کی بڑی وجہ قصاص و دیت کے قانون کا غلط استعمال ہے۔

اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ سینٹ میں ایک بل پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں اس قانون میں ترمیم کے لیے کہا جائے گا۔

"اگر بھائی نے اپنی بہن کو قتل کیا ہوگا تو والد قصاص و دیت کے قانون کے تحت اپنے بیٹے کو معاف کردیتا ہے۔ ہم قصاص و دیت کے قانون کی مخالفت نہیں کر رہے ہم یہ کہہ رہے ہین کہ اس قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے۔"

لیکن مذہبی دانشور مفتی منیب الرحمن قصاص و دیت کے قانون میں کسی طرح کی ترمیم کو خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی حوصلہ افزا قدم قرار نہیں دیتے۔

ان کے خیال میں قوانین کے موثر نفاذ ہی سے ایسے سماجی مسائل کا حل ممکن ہے۔

"سیدھا سیدھا قصاص ہے جان کے بدلے جان، کان کے بدلے کان، آنکھ کےبدلے آنکھ اور زخموں کا بھی قصاص ہے کوئی بھی ہو۔ قانو کو نافذ کردیں تو اتنی اقسام کے قانون بنانے کی ضرورت ہی نہیں، اگر یہ بنا بھی لیں تو پہلے سے بھے ہوئے قانون کہاں نافذ ہورہے ہیں۔ حل تو یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو، وہ ہے نہیں تو قانون آپ دس کتابیں پہلے ہیں پچاس اور بنا لیجیے کیا ہو جائے گا۔"

ملک میں غیرت کے نام پر تازہ ترین واقعہ ایک روز قبل پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کے قریب ڈسکہ کے علاقے میں پیش آیا جہاں گھر والوں نے پسند کی شادی کرنے والی لڑکی اور اس کے شوہر کو قتل کردیا۔

مقامی پولیس کے مطابق 17 سالہ معافیہ بی بی نے گھر والوں کی رضا مندی کے بغیر 30 سالہ سجاد احمد سے 19 جون کو شادی کی تھی۔

لڑکی کا خاندان بعدازاں اس شادی کو تسلیم کرنے کا جھانسہ دے کر جوڑے کو گھر واپس لایا جہاں جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب ٹوکے کے وار کر کے اس نوبیاہتا جوڑے کو قتل کردیا۔

پولیس حکام کے مطابق لڑکی کے دادا، والدہ اور دو چچاؤں کو گرفتار کر کے ان کا عدالت سے ریمانڈ لے لیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ بھی حالیہ دنوں میں غیرت کے نام پر قتل کے مختلف واقعات ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوچکے ہیں۔

اپریل میں لاہور میں پیش آنے والے ایک واقعے نے پوری دنیا کی توجہ ایک بار پھر پاکستان میں عورتوں پر ہونے والے تشدد کی طرف مبذول کروا دی تھی۔

لاہور کی ہائی کورٹ کے باہر والد اور بھائیوں نے مل کر پسند کی شادی کرنے والی ایک خاتون کو اینٹیں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG