رسائی کے لنکس

'قانون ہاتھ میں لینے کا رجحان تشویشناک ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے تدارک کے لیے قانون سازی کے باوجود حالیہ مہینوں میں ایسے واقعات میں جہاں ایک طرف اضافہ دیکھنے میں آیا ہے وہیں ماضی کے برعکس غیرت کے نام پر اب مردوں کے قتل کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں۔

تازہ ترین واقعہ پنجاب کے ضلع گجرات میں اتوار کو دیر گئے پیش آیا جہاں شائع شدہ اطلاعات کے مطابق پسند کی شادی کرنے والے ایک 28 سالہ شخص کو مبینہ طور پر لڑکی کے رشتے داروں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔

بتایا جاتا ہے کہ لڑکی کا خاندان اس شادی کے خلاف تھا اور شادی ہونے کے بعد وہ لڑکے سے مبینہ طور پر مخاصمت رکھتا تھا۔

پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ درج کر لیا ہے لیکن تاحال ملزمان قانون کی گرفت میں نہیں آ سکے ہیں۔

ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں ضلع گجرات میں غیرت کے نام پر کسی مرد کے قتل کا یہ دوسرا واقعہ ہے جب کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران گجرات اور اس کے گردونواح میں 17 خواتین کے قتل ہونے کا بتایا جاتا ہے۔

پنجاب میں خواتین کی صورتحال پر نظر رکھنے والے سرکاری کمیشن کی سربراہ فوزیہ وقار کہتی ہیں کہ ان کے ادارے کو رواں سال جنوری سے 30 اپریل کے دوران غیرت کے نام پر قتل کے 49 واقعات کا علم ہوا ہے اور ان کے بقول بلاشبہ ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جو کہ ایک تشویشناک امر ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں پسند کی شادی کو جرم تصور کرنے کی ذہنیت جنس سے قطع نظر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتی اور اس کے ساتھ ساتھ قانون کو ہاتھ میں لینے کا رجحان صورتحال کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔

"معاشرے میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا رواج بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہجوم کی طرف سے نام نہاد انصاف کے واقعات چاہے وہ توہین مذہب کے نام پر کیا جائے بغیر یہ تحقیقات کیے کہ کسی نے کوئی بات کی ہے یا نہیں قانون کو ہاتھ میں لینا اور پھر اس کے بعد اس کی حمایت ہونا معاشرے کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ کسی بھی چیز میں جس کو معاشرہ سمجھتا ہے کہ صحیح ہے بغیر تحقیق کے وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے۔"

گزشتہ ماہ مردان میں یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا
گزشتہ ماہ مردان میں یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا

فوزیہ وقار نے کہا کہ رواں سال پنجاب کے مختلف علاقوں سے رپورٹ ہونے والے واقعات پر ان کا ادارہ پولیس سے رابطہ کر کے ان پر پیش رفت کا جائزہ لیتا رہتا ہے تاکہ ان میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کو یقینی بنایا جا سکے۔

"ہم یہ نے یہ کارروائی کی ہے کہ پولیس سے ان تمام کی ایف آئی آر پر پوچھتے رہتے ہیں کہ اس میں آپ نے کیا کیا ہے 49 میں سے دو کیسز میں تو ملزمان کو سزا بھی ہو چکی ہے باقی ابھی مفرور ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ متحرک ذرائع ابلاغ کے باعث اب غیرت کے نام پر قتل کے ایسے واقعات بھی رپورٹ ہونا شروع ہو گئے ہیں جو کہ ماضی میں سامنے نہیں آتے تھے۔

XS
SM
MD
LG