رسائی کے لنکس

انسانی حقوق کے تحفظ میں پیش رفت لیکن بہت کام باقی


انسانی حقوق کے تحفظ میں پیش رفت لیکن بہت کام باقی
انسانی حقوق کے تحفظ میں پیش رفت لیکن بہت کام باقی

حالیہ برسوں کے دوران شمال مغربی علاقوں میں طالبان جنگجوؤں کے خلاف کی گئی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں لاکھوں شہریوں کی نقل مکانی بھی ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ ایچ آر سی پی کے مطابق 2010ء میں مسلسل دوسرے برس بھی اندرون ملک بے گھر افراد کی تعداد پناہ گزینوں سے زیادہ تھی۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں پیش رفت کے باوجود اس موضوع پر کام کرنے والے مختلف ادارے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کہا ہے کہ رواں سال تشدد، انتہاپسندی اور عدم برداشت میں اضافے کے باعث ملک میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو لاحق خطرات بھی بڑھ گئے۔

ہر سال 10 دسمبر کو منائے جانے والے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ایچ آر سی پی کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق جہاں اِن حقوق کو درپیش روایتی خدشات بدستور موجود ہیں وہیں خفیہ حراست اور جبراً گمشدگی کی شکل میں نئے چیلنجز بھی سامنے آرہے ہیں۔

انسانی حقوق کے تحفظ میں پیش رفت لیکن بہت کام باقی
انسانی حقوق کے تحفظ میں پیش رفت لیکن بہت کام باقی

ملک کے مختلف شہروں بالخصوص دارالحکومت اسلام آباد میں وقتاً فوقتاً لاپتہ افراد کی بازیابی کے حق میں کیے جانے والے مظاہرے اس مسئلے کا ایک واضح ثبوت ہیں۔لاپتہ افراد کی تصاویر اُٹھائے اِن مظاہروں میں شریک لوگوں کا الزام ہے کہ اِن کے اہل خانہ خفیہ ایجنسیوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں تاہم حکومت اور دیگر ادارے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بیشتر لاپتہ افراد کے مبینہ طور پر عسکریت پسندوں سے رابطے ہیں جس کی وجہ سے وہ رو پوش ہیں۔

تاہم سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران حال ہی میں خفیہ اداروں نے تسلیم کیا ہے کہ 11 مشتبہ افراد اُن کی تحویل میں ہیں جن پر دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہونے کا شبہ ہے اور اُن سے نامعلوم مقام پر تفتیش جاری ہے۔ اس اعتراف کے بعد عدالت نے خفیہ اداروں کو حکم دیا ہے کہ گرفتار افرار اور اُن کے خاندان کی ملاقاتوں کا انتظام کیا جائے۔

نقل مکانی کرنے والوں کے لیے قائم ایک خیمہ بستی
نقل مکانی کرنے والوں کے لیے قائم ایک خیمہ بستی

حالیہ برسوں کے دوران شمال مغربی علاقوں میں طالبان جنگجوؤں کے خلاف کی گئی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں لاکھوں شہریوں کی نقل مکانی بھی ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ ایچ آر سی پی کے مطابق 2010ء میں مسلسل دوسرے برس بھی اندرون ملک بے گھر افراد کی تعداد پناہ گزینوں سے زیادہ تھی۔

کمیشن نے افغان سرحد سے ملحقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں بغیر پائلٹ کے مبینہ امریکی طیاروں کے حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں پر بھی شدید تشویس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بھی ماورائے عدالت قتل کے زمرے میں آتی ہیں ۔

جمعہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ممتاز احمد گیلانی نے بتایا کہ حکومت اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ یہ ملک کی سالمیت پر حملہ ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے اور امریکہ یا کسی دوسرے ملک کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اس کی سرزمین پر کارروائی کرے۔

وفاقی وزیر نے اعتراف کیا کہ ڈرون حملوں میں شدت پسندوں کے ساتھ بڑی تعداد میں عام قبائلی بھی مارے جاتے ہیں تاہم سرکاری سطح پر ان میزائل حملوں میں ہلاک ہونے والے بے گناہ افراد کے اعدادوشمار دستیاب نہیں۔

انسانی حقوق کے تحفظ میں پیش رفت لیکن بہت کام باقی
انسانی حقوق کے تحفظ میں پیش رفت لیکن بہت کام باقی

تاہم غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق 2004ء سے اب تک 180 سے زائد ڈرون حملے ہو چکے ہیں جن میں 2,000 سے زائدافراد مارے گئے۔ مختلف تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کا ماننا ہے کہ چند درجن شدت پسندوں کے علاوہ ہلاک ہونے والے تمام افراد عام قبائلی تھے۔

ایچ آر سی پی کا کہنا ہے نومبر میں عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے مقدمے میں سزائے موت کا عدالتی فیصلہ اوراس کے بعد پشاور کی ایک مسجد کے امام کی طرف سے اُس کو قتل کرنے والے شخص کے لیے انعام کا اعلان ناموزوں قوانین اور اُن کے امتیازی استعمال کے باعث شہریوں کا لاحق خطرات کی عکاسی کرتے ہیں۔

اقتصادی مسائل میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کو بنیادی سہولتوں تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے اور اس صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان ناخواندہ محنت کش طبقے کو ہوا ہے جسے پہلے ہی بے روزگاری کا سامنا ہے۔

اُدھر 2010ء میں کئی صحافیوں کو آزادی خیال کا حق استعمال کرنے کی قیمت اپنی جان کی صورت میں ادا کرنی پڑی۔

انسانی حقوق کے تحفظ میں پیش رفت لیکن بہت کام باقی
انسانی حقوق کے تحفظ میں پیش رفت لیکن بہت کام باقی

کمیشن کا کہنا ہے کہ ملک میں ماورائے عدالت قتل اور زیر حراست مشتبہ افراد پر پولیس کے تشدد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس کے مطابق ملک کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے تجاوز کرنے کے قریب ہے کیوں کہ حکومت کی طرف سے قید کے متبادل اقدامات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

انسانی حقوق اور قیدیوں کے حقوق پر کام کرنے والی ایک سرکاری تنظیم شارب کے مطابق ملک میں موجود جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش 36ہزار ہے لیکن ان میں ایک لاکھ سے زائد افراد کو رکھا گیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ ان حالات میں بنیادی حقوق کی پامالی ایک ظاہر سی بات ہے۔

رواں سال حکومت سزائے موت ختم کرنے کے وعدوں کے بارے میں بظاہر کوئی پیش رفت نہیں کر سکی لیکن سزائے موت پانے والے کسی مجرم کو پھانسی پر بھی نہیں چڑھایا گیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ملک میں ایسے افراد کی تعداد آٹھ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جنہیں موت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔

انسانی حقوق کے تحفظ میں پیش رفت لیکن بہت کام باقی
انسانی حقوق کے تحفظ میں پیش رفت لیکن بہت کام باقی

اس سال عالمی دن کا موضوع ”امتیاز کے خاتمے کے سلسلے میں سرگرم انسانی حقوق کے محافظ“ ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے حق میں آواز بلند کرنے والے کارکنوں کو درپیش خطرات پر غور کرنا اور اُن کا تدارک انتہائی ضروری ہے اور اس سلسلے میں مرکزی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

رواں سال ہونے والے مثبت اقدامات کے بارے میں کمیشن نے کہا ہے کہ جہاں پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق متعدد بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق کی وہیں اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری بھی آئین میں درکار اصلاحات کی جانب ایک مثبت قدم تھا۔ تاہم آئینی ترمیم کا نفاذ اور انسانی حقوق کے معاہدوں کی پاسداری کے لیے نظام قائم کرنا ابھی باقی ہے۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے اب بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور معنی خیز اقدامات کی مدد سے یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔

عاصمہ جہانگیر
عاصمہ جہانگیر

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سربراہ اور انسانی حقوق کی علم بردار عاصمہ جہانگیر نے اپنے پیغام میں قانون اور عدالتی نظام میں خامیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد کا شکار ہونے والے افراد کو اب بھی مقدمات درج کرانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ تحقیقات کا عمل موثر نہیں جس کی ایک بڑی وجہ پولیس کو جدید ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی ہے۔ عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ ڈروخوف کی وجہ سے گواہ عدالت میں بیان دینے سے کتراتے ہیں۔

عدالتی نظام کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ذیلی عدالتوں میں کیسوں کی تعداد بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے وہ حقائق کی گہرائی میں جانے کے بجائے جلد از جلد فیصلہ سنانے کو ترجیح دیتی ہیں اور یہ صورتحال ملک بھر میں پائی جاتی ہے۔

اُن کے مطابق ماتحت عدالتوں میں تیرہ لاکھ سے زائد مقدمات زیر سماعت ہیں جب کہ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 81 ہزار ہے جن میں صرف 24 ہزار سزا یافتہ ہیں۔

XS
SM
MD
LG