رسائی کے لنکس

عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کرنا ناگزیر ہے: احسن اقبال


بعض اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے 6 اعشاریہ 3 فیصد بجٹ خسارے کے ہدف کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کی طرف سے قرضے کا حصول بظاہر ممکن نہیں۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی حکومت کے لیے آئی ایم ایف سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں یا حکومتوں سے قرضہ حاصل کرنے کے لیے رجوع کرنا نا گزیر ہے۔
]
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں ان کا تاہم کہنا تھا کہ ان قرضوں کے حصول کے لیے مسلم لیگ (ن) کی نو منتخب حکومت ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرے گی جس سے ان کے بقول عوام پر کوئی ناقابل برداشت بوجھ پڑے۔

’’آخر دنیا یہ بھی نہیں چاہتی کہ پاکستان میں اقتصادی بحران پیدا ہوجائے جس سے سماجی عدم استحکام پیدا ہو جائے۔ ہم نے ملک کی معیشت کو بحال بھی کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غربت اور بے روزگاری کا بھی علاج کرنا ہے۔‘

بین الاقوامی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یا آئی ایم ایف کی ایک ٹیم کی بدھ کو اسلام آباد آمد متوقع ہے جہاں وہ ملک میں ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ وزارت خزانہ کے عہدیداروں سے ملاقاتیں بھی کرے گی۔

حکام کے مطابق مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے پر بھی بات چیت ہوگی۔ بعض اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے 6 اعشاریہ 3 فیصد بجٹ خسارے کے ہدف کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کی طرف سے قرضے کا حصول بظاہر ممکن نہیں۔

تاہم احسن اقبال کہتے ہیں کہ ’’ہم یکدم (بجٹ خسارہ) چار فیصد تک نہیں لاسکتے لہذا ہم نے میڈیم ٹرم پروگرام بنایا ہے جس کے تحت تین سال میں تمام (اقتصادی) انڈیکیٹرز کو قابو میں لایا جائے گا اگر ہم آمرانہ اقدام کے ذریعے بجٹ خسارے کو 9 فیصد سے چار فیصد تک لائے تو پوری معیشت بیٹھ جائے گی۔ ہمیں مرحلہ وار انداز میں درست سمت کی طرف بڑھنا ہوگا۔‘‘


ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے اقتصادی بحالی سے متعلق اقدامات کی ’’سمت درست‘‘ ہے جس میں چھوٹی کابینہ، اخراجات کو ضائع ہونے سے روکنا، معیشت میں شفافیت لانا اور میرٹ پر تقرریاں شامل ہیں۔

وزیر خزانہ کے مطابق اس وقت ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 6 ارب ڈالر تک گر گئے ہیں جبکہ پاکستان کے مجموعی قرضہ جات 14 سو ارب روپے ہیں۔

پاکستان نے رواں سال کے اواخر تک آئی ایم ایف کو قرضے کی دو اقساط بھی ادا کرنا ہے جو کہ مجموعی طور پر دو اعشاریہ 5 ارب ڈالر کی ہیں۔

حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی حکومت کی طرف سے پیش کردہ بجٹ میں معاشی بہتری سے متعلق’’وژن‘‘ نہیں دکھائی دیا۔

’’حکومت کہتی ہے کہ اصلاحات کے ذریعے یہ 35 ارب روپے حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے اور ایک ٹیلی فون کمپنی کے پاس پھنسے ہوئے 80 کروڑ ڈالر حاصل کرلیں گے۔ مگر یہ اندازے ہیں جو غلط بھی ہو سکتے ہیں جبکہ ان کا پیش کردہ بجٹ میڈیم ٹرم کے پروگرام کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ ماضی ہی طرح ہے۔‘‘

آئی ایم ایف سمیت تمام بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ شدت پسندی، توانائی کے بحران اور بدعنوانی سے شدید متاثرہ پاکستانی معیشت کی بحالی کے لیے حکومت کو توانائی کے شعبے میں اصلاحات متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اس میں غیر منصافانہ مراعات کو ختم اور آمدن کو بڑھانے کے لیے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہو گا۔
XS
SM
MD
LG