رسائی کے لنکس

حنا ربانی کھر کو’کشمیری عوام کے حقیقی نمائندوں ‘سے بھی بات کرنی چاہیئے تھی: عمر عبد اللہ


حنا ربانی کھر کو’کشمیری عوام کے حقیقی نمائندوں ‘سے بھی بات کرنی چاہیئے تھی: عمر عبد اللہ
حنا ربانی کھر کو’کشمیری عوام کے حقیقی نمائندوں ‘سے بھی بات کرنی چاہیئے تھی: عمر عبد اللہ

بھارتی کشمیر کے وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے جمعرات کو سری نگر میں نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو کے دوران کہا کہ وہ نہیں سمجھتے ہیں کہ پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر کا نئی دہلی میں اپنے بھارتی ہم منصب سے مذاکرات کرنے سے پہلے کشمیری آزادی پسند لیڈروں سے ملنا کوئی ایسا معاملہ ہے جِسے تشویش ناک قرار دیا جاسکتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ، بلکہ ماضی میں بھی بھارت کے سرکاری دورے پر آنے والے پاکستانی عہدے داروں نے علیحدگی پسندوں کے ساتھ اِس طرح کی ملاقاتیں کی ہیں۔

تاہم، عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ اگر اسلام آباد چاہتا ہے کہ بھارت کے ساتھ امن مذاکرات میں کشمیری قیادت کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے تو اُسے علیحدگی پسند قیادت تک ہی محدود نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ، اسلام آباد کو معلوم ہونا چاہیئے کہ بھارت نواز لیڈرشپ کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ صرف علیحدگی پسند قیادت ہی عوام کی نمائندہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتی، بلکہ انتخابات کے دوران بارہا قومی دھارے میں شامل بھارت نواز لیڈرشپ نےعوامی نمائندہ ہونے کے اپنے کردار کو ثابت کیا ہے۔

اُدھر بھارت کے سابق داخلہ سکریٹری جے کے پلئی نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ پاکستانی وزیرِ خارجہ کو کُل جماعتی حریت کانفرنس کے لیڈروں کے بجائے عمر عبد اللہ سے ملاقات کرنی چاہیئے تھی، کیونکہ، اُن کے بقول، وہ کشمیری عوام کے حقیقی نمائندے ہیں۔

پاکستانی وزیرِ خارجہ نے بدھ کے روز اپنے بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا سے مذاکرات کرنے سے ایک دِن پہلے کشمیری آزادی پسند لیڈروں سےنئی دہلی کے پاکستانی ہائی کمیشن میں الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں۔

بھارت نے سرکاری سطح پر اُس پر کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ تاہم، حزب ِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی (بے جے پی)نے حنا ربانی کھر اور حریت کانفرنس کے لیڈروں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں پر پاکستانی وزیرِ خارجہ کے سامنے اُس وقت باضابطہ طور پر اپنی ناراضگی ظاہر کی جب وہ اِس کے لیڈروں ایل کے آڈوانی اور سشما سوراج سے ملیں۔

بھارتی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران نامہ نگاروں نے جب اُن سے اِس بارے میں استفسار کیا تو پاکستانی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان کا کشمیر کے بارے میں ایک واضح مؤقف ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG