رسائی کے لنکس

بھارت کو مذاکرات منسوخ نہیں کرنے چاہیئے تھے: نواز شریف


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کے ساتھ اگر مذاکرات کی بحالی ہوتی ہے تو اس میں پاکستان کی خودداری اور عزت پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہیئے۔ اُن کے بقول پاکستان بامقصد مذاکرات کا خواہاں ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ بھارت کو خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات منسوخ نہیں کرنے چاہیئے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بامقصد مذاکرات کا خواہاں ہے جس میں تمام تصفیہ طلب معاملات بشمول مسئلہ کشمیر پر بات چیت ضروری ہے۔

نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں سارک سربراہ اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپسی پر ہوائی جہاز میں صحافیوں سے گفتگو میں نواز شریف کا کہنا تھا ’’خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات (بھارت نے) یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیئے، جب کہ دونوں وزارئے اعظم کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ یہ مذاکرات کیے جائیں گے۔ تو بھارت کو یکطرفہ طور پر مذاکرات کو منسوخ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔‘‘

رواں سال 25 اگست کو اسلام آباد میں ہونے والے دو طرفہ خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات بھارت نے یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیئے تھے۔ بھارت کی طرف سے اس کی وجہ مذاکرات سے قبل نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کی کشمیری رہنماؤں سے ملاقات بتائی گئی۔

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی سفارتی روابط سے قبل پاکستانی ہائی کمشنر کی کشمیری رہنماؤں سے بات چیت روایت رہی ہے۔

’’جب بھی اعلیٰ سطحی مذاکرات ہوتے ہیں تو اس سے پہلے عام طور پر یہ دستور ہے کہ (بھارت میں پاکستانی) ہائی کمشنر جو ہے وہ کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کرتا ہے اور ان سے بھی پوچھتا ہے کہ آپ بتائیں کہ آپ کا نقطہ نظر اس سلسلے میں کیا ہے۔۔۔۔ یہ پچھلے 65 سال سے ایسا ہوتا ہے تو کوئی نئی بات تو نہیں تھی جس پر مذاکرات منسوخ کر دیئے جاتے۔‘‘

فائل فوٹو
فائل فوٹو

واضح رہے کہ رواں سال مئی میں بھارتی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف اور نریندر مودی میں ہونے والے مذاکرات میں خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات پر اتفاق ہوا تھا۔

اگرچہ سارک سربراہ اجلاس کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان باضابطہ دو طرفہ ملاقات تو نہیں ہوئی، تاہم نواز شریف نے کہا کہ ’’جب میں ہیلی کاپٹر سے نکلا تو (نریندر مودی) سامنے کھڑے تھے، اور بھی رہنما کھڑے تھے سب سے ملاقات ہوئی۔ خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات منسوخ ہوئے، ہم سلام دعا سے تو نہیں گئے۔ سلام دعا تو اچھی طرح ہوئی، حال چال بھی پوچھا جب کہ کھانے کے میز پر بھی ہم اکٹھے تھے وہاں پر بھی کئی باتیں ہوئیں۔‘‘

وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان باہمی عزت و وقار کی بنیاد پر مذاکرات کی بحالی چاہتا ہے۔

’’مذاکرات کی بحالی اگر ہوتی ہے تو اس میں پاکستان کی خودداری ہے، پاکستان کی عزت پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہیئے۔۔۔۔ ہندوستان کے ساتھ اگر بات چیت ہوتی بھی ہے تو پھر بات چیت بامقصد ہونی چاہیئے اس کا کوئی نتیجہ بھی نکلنا چاہیئے۔‘‘

وزیراعظم نواز شریف نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارت سے مذاکرات کے لیے پاکستان نے کسی تیسرے ملک کو کردار ادا کرنے کے لیے نہیں کہا ہے۔


’’ہم نے کسی کو بھی کردار ادا کرنے کے لیے نہیں کہا اگر دونوں فریق اپنے معاملات کو ہمیشہ کے لیے ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو ان کو پھر جتنے بھی مسائل ہیں، کشمیر کا مسئلہ ہے اُن پر بیٹھ کر سنجیدہ گفتگو کرنی چاہیئے۔ گلے سے اتارنے والی بات نہیں ہونی چاہیئے۔‘‘

بھارت کا الزام ہے کہ شدت پسند اُس کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں اور وہ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ تاہم پاکستان ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے یہ کہتا رہا ہے کہ وہ خطے میں امن و استحکام کے لیے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کر رہا ہے۔

حالیہ مہینوں میں دونوں ملکوں کے درمیان متنازع علاقے کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری پر تواتر سے فائرنگ اور گولہ باری کے تبادلے کے واقعات میں دونوں جانب 20 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

پاکستان اور بھارت ان واقعات میں پہل کا الزام ایک دوسرے پرعائد کرتے ہیں، سرحد پر کشیدگی کی وجہ سےدونوں ملکوں کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔

XS
SM
MD
LG