رسائی کے لنکس

پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات بھی تناؤ کا شکار


سفارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ خودمختار ملکوں میں ایک دوسرے کے سفارتکاروں سے متعلق تحفظات اور ان کو ملک چھوڑنے کے لیے کہنا کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ معاملات سفارتی تعلقات میں تنزلی کو ظاہر کرتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان ورکنگ باؤنڈری اور متنازع علاقے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فورسز کے درمیان حالیہ ہفتوں میں فائرنگ اور گولہ باری کے تبادلے سے تعلقات میں تناؤ تو جاری ہی تھا لیکن اب کشیدگی پوری طرح سے دو طرفہ سفارتی تعلقات میں بھی در آئی ہے۔

جمعرات کو پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد میں بھاتی ہائی کمیشن میں سفارتکاروں کے روپ میں آٹھ افراد پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔

ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے بتایا کہ مبینہ طور پر ان میں سے چھ کا تعلق را اور دو کا انٹیلی جنس بیورو سے ہے لیکن یہ لوگ بظاہر مختلف سفارتی عہدوں پر کام کر رہے تھے۔

"کمرشل سرگرمیوں کی آڑ میں یہ لوگ اپنا نیٹ ورک بڑھا رہے تھے۔ اپنی سفارتی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ معلومات کے حصول کے لیے بااثر حلقوں میں داخل ہوتے اور مختلف کارروائیوں کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو نقصان بھی پہنچا رہے تھے۔"

ترجمان کے بقول ان میں کمرشل کونسلر راجیش کمار اگنی ہوتری "را" کے اسٹیشن چیف ہیں جب کہ دیگر افراد میں انوراگ سنگھ، امردیپ سنگھ بھٹی، دھرمندر سوڈھی، وجے کمار ورما، مادھون نندا کمار، بلبیر سنگھ اور جیابالن سینتھل شامل ہیں۔

بھارت نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ کر ان آٹھ کارکنان کو ملک واپس بلا بلا لیا ہے کہ ان کی شناخت ظاہر کیے جانے سے ان کی سلامتی کو خطرے کا سامنا ہے۔

گزشتہ ہفتے ہی پہلے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک سفارتی کارکن کو پولیس نے جاسوسی کے الزام میں حراست میں لیا اور بعد ازاں بھارت نے انھیں "ناپسندیدہ شخصیت" قرار دے کر ملک سے چلے جانے کا کہا۔

اس کے ردعمل میں پاکستان نے بھی اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے ایک عہدیدار کو ایسے ہی الزامات کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔

علاوہ ازیں ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے بتایا کہ پاکستان نے اپنے ان چھ سفارتی حکام کو وطن واپس بلا لیا ہے جن کے نام بھارت کی طرف سے ظاہر کیے جانے سے ان کی اور ان کے خاندان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔

سفارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ خودمختار ملکوں میں ایک دوسرے کے سفارتکاروں سے متعلق تحفظات اور ان کو ملک چھوڑنے کے لیے کہنا کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ معاملات سفارتی تعلقات میں تنزلی کو ظاہر کرتے ہیں۔

پاکستان کے ایک سابق سفارتکار خالد سعید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ کسی طور بھی دوطرفہ تعلقات کے لیے اچھے اشارے نہیں ہیں۔

"دونوں ملکوں کے بڑے بڑے مشن ہوا کرتے تھے قونصل خانے ہوتے تھے لیکن اب قونصل خانے نہیں ہیں پاکستان کا جو قونصل خانہ ممبئی میں کھلنا تھا وہ پوری طرح نہیں کھل سکا اور اب سفارتخانوں میں عملے کی کمی، میرا خیال ہے یہ اچھی بات نہیں ہے۔"

امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے مابین سفارتی تناؤ سے بھی آگاہ ہے اور اس پر نظر رکھے ہوئے ہے اور واشنگٹن کے بقول دونوں ملکوں کو کشیدگی میں کمی کے لیے بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے جس کی امریکہ بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

XS
SM
MD
LG