رسائی کے لنکس

’توہین مذہب کے قانون کا زیادہ استعمال مسلمانوں پر ہوا‘


اگر صوبہ سندھ کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو وہاں توہین مذہب کے قانون کے تحت 129 افراد کو سزائیں سنائی گئیں جن میں سے 99 مسلمان تھے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ملک کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں ایک سوال کے تحریری جواب میں کہا کہ اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ توہین مذہب کا قانون صرف اقلیتوں کے خلاف استعمال نہیں ہو رہا ہے۔

رکن قومی اسمبلی بیلم حسنین کے سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے اس بارے میں اب تک جو اعداد و شمار مہیا کیے گئے ہیں، اُن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ توہین مذہب سے متعلق مقدمات میں سزائیں پانے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

قومی اسمبلی میں جمع کروائے گئے تحریری بیان کے مطابق اگر صوبہ سندھ کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو وہاں توہین مذہب کے قانون کے تحت 129 افراد کو سزائیں سنائی گئیں جن میں سے 99 مسلمان تھے۔

ایوان میں جمع کروائے گئے بیان میں پنجاب اور بلوچستان کا ذکر نہیں کیا گیا البتہ صوبہ خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے بارے میں کہا گیا کہ وہاں اس نوعیت کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔

ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ بات تو درست ہے کہ توہین مذہب کے قانون کے تحت زیادہ سزائیں مسلمانوں کو سنائی گئیں اور اُن کے بقول اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

’’کیوں کہ ظاہر ہے پاکستان میں نوے فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں۔۔۔ مگر کچھ ایسے کیسز ہیں جو بہت ہی افسوسناک ہیں جیسے آسیہ بی بی کا معاملہ ہے۔۔۔ ان کو سزائے موت تو سنائی جا چکی ہے لیکن ان کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔‘‘

ہیومین رائیٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے کہا کہ توہین مذہب کا الزام ایک حساس معاملہ ہے اور محض الزامات کی بنا پر کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

’’کسی کی سزائے موت پر تو عمل درآمد نہیں ہوا لیکن ساٹھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں جو توہین مذہب کے ملزم تھے یا ان پر شبہ تھا۔۔ اُنھیں پرتشدد مظاہرین نے یا جیل میں مار دیا گیا۔۔۔‘‘

گزشتہ ماہ ہی انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم "ایمنسٹی انٹرنیشنل" نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ توہین مذہب سے متعلق پاکستان کے قوانین کا اکثر غلط استعمال انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے واقعات کا سبب بنتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگر کسی شخص پر توہین مذہب کا الزام لگ جاتا ہے تو تنظیم کے بقول اس شخص کو ایسے لوگوں سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی ہوتی ہے جو تشدد کی راہ اختیار کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔

حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ وہ ملک میں بسنے والے تمام شہریوں کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدام کرتی آ رہی ہے اور خاص طور پر غیرمسلم آبادی کو عدم مساوات پر مبنی برتاؤ سے بچانے کے لیے خصوصی توجہ دے رہی ہے۔

توہین مذہب سے جڑا کوئی بھی معاملہ پاکستان میں ایک حساس انتہائی حساس نوعیت معاملہ تصور کیا جاتا ہے اور اس بارے میں مروجہ قانون میں کسی بھی طرح کی ترمیم کی تجویز پر خاص طور پر ملک کے مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آتا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG