رسائی کے لنکس

پاکستان کی مجبوریوں کو سمجھا جائے: دفترِ خارجہ


پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ان کا ملک توقع کرتا ہے کہ اس کے دوست ممالک بشمول امریکہ اسلام آباد کی اقتصادی مجبوریوں کو سمجھے گا کہ آخر ایران سے گیس کی درآمد کا یہ منصوبہ پاکستان کے لیے کیوں ضروری ہے۔

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ ہفتے ایران کا دورہ کیا تھا جس میں دونوں ممالک کے صدور نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی جلد تکمیل پر اتفاق کیا تھا۔

اس دورے کے چند ہی دنوں بعد جمعرات کو دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں بتایا کہ 11 مارچ کو ایران سے گیس درآمد کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کیا جائے گا اور پائپ لائن بچھانے کی تقریب میں شرکت کے لیے صدر زرداری ایران جائیں گے۔

اُنھوں نے بتایا کہ گیس درآمد کے اس منصوبے پر کام کی شروعات کے لیے منعقدہ تقریب میں کئی ممالک کے سربراہان کو بھی مدعو کیا گیا ہے لیکن ترجمان نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے باعث اس کے تیل کے شعبے میں سرمایہ کاری پر امریکہ نے بعض تعزیرات عائد کر رکھی ہیں۔

امریکہ، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتا آیا ہے اور حال ہی میں امریکی عہدیداروں کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ پاکستان کو ایران کے ساتھ کسی بھی ایسے منصوبے سے گریز کرنا چاہیئے جو پابندیوں کی زد میں آتا ہو۔

لیکن دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے ایک بار پھر پاکستان کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ امریکی تحفظات کے باجود پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کیا جائے گا۔

معظم احمد خان نے کہا کہ پاکستان ان تمام تحفظات سے آگاہ ہے جن کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن اسلام آباد کا موقف بڑا واضح ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان توقع کرتا ہے کہ اس کے دوست ممالک بشمول امریکہ اسلام آباد کی اقتصادی مجبوریوں کو سمجھیں گے کہ آخر گیس کی درآمد کا یہ منصوبہ اس کے لیے کیوں ضروری ہے۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے نا صرف اقتصادی سرگرمیاں متاثر بلکہ اس کی وجہ سے سماجی زندگی بھی متاثر ہوئی ہے۔

ساڑھے سات ارب ڈالر کے اس گیس پائپ لائن منصوبے کے لیے سرمائے کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے کیوں کہ ایران میں تیل کے شعبے میں امریکی تعزیرات سے بچنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے اس کے لیے رقم فراہم کرنے سے گریزاں رہے ہیں۔

امریکہ کا موقف ہے کہ وہ پاکستان میں توانائی کے بحران سے بخوبی آگاہ ہے اور اس کے حل کے لیے وہ اپنا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔

رواں ہفتے اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے کہا تھا کہ پاکستان میں واشنگٹن کی معاونت سے جاری منصوبوں کے ذریعے 2013ء کے اختتام تک اس ملک میں بجلی کی پیداوار میں 900 میگاواٹ اضافہ متوقع ہے جس سے 20 لاکھ صارفین مستفید ہو سکیں گے۔
XS
SM
MD
LG