رسائی کے لنکس

علاقائی تناظر میں وزیر اعظم کا دورہ ایران بہت اہم ہے: مبصرین


افغانستان میں قیادت کی تبدیلی اور بین الاقوامی افواج کی وطن واپسی کے بعد وہاں کی صورتحال سے پاکستان اور ایران دونوں براہ راست متاثر ہوسکتے ہیں جس کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان مزید بہتر تعلقات وقت کی ضرورت ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف کے دورہ ایران کو مبصرین خطے کی مجموعی صورتحال اور پاکستان کو درپیش توانائی اور اقتصادی مشکلات کے تناظر میں خاصی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔

نوازشریف گزشتہ سال وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ دو روزہ سرکاری دورے پر اتوار کو تہران پہنچے جہاں اعلیٰ قیادت سے ملاقاتوں میں دو طرفہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

مبصرین کے بقول پاکستان اور ایران کے تعلقات میں گزشتہ تیس سالوں کے دوران ساٹھ اور ستر کے عشرے جیسی گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آئی لیکن اس وقت خطے کی صورتحال خصوصاً افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور بدلتی ہوئی عالمی صورتحال کے تناظر میں دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت کی ملاقات پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کے نئے باب کا آغاز کرسکتی ہے۔

معروف تجزیہ کار اے زیڈ ہلالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں قیادت کی تبدیلی اور بین الاقوامی افواج کی وطن واپسی کے بعد وہاں کی صورتحال سے پاکستان اور ایران دونوں براہ راست متاثر ہوسکتے ہیں جس کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان مزید بہتر تعلقات وقت کی ضرورت ہیں۔

"دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے، افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہے۔۔۔ آنے والے وقتوں میں دونوں ممالک بڑے شدید سیاسی، سماجی و اقتصادی مسائل میں الجھ سکتے ہیں جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے علاقے کے ممالک خصوصاً پاکستان اور ایران جتنا زیادہ قریب ہوں گے اتنا زیادہ بہتر ہوگا۔"

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو توانائی کی قلت کا بھی سامنا ہے جس پر قابو پانے کے لیے ایران اس کی مدد کرسکتا ہے جب کہ ملک کی معیشت کو فروغ دینے کے لیے نواز شریف کی کوششوں میں تہران خاصا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

"بندر عباس اور چاہ بہار کی بندرگاہیں وسطی ایشیا کے لیے استعمال ہو رہی ہیں اور پاکستان چاہتا ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں گوادر کی بندر گاہ استعمال ہو تو اس کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان جتنی ہم آہنگی ہوگی اتنا ہی بہتر ہوگا۔"

وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی سمیت ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی ایران گیا ہے۔
اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کی یاداشتوں اور مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدوں پر دستخط متوقع ہیں۔

پاکستان اور ایران کے درمیان اربوں ڈالر کے گیس پائپ منصوبے پر گزشتہ سال کے اوائل میں سابقہ حکومت نے دستخط کیے تھے لیکن نواز شریف انتظامیہ ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کے تناظر میں چاہتی ہے کہ ایران اس پر نظر ثانی کرے۔

توقع ہے کہ وزیراعظم کے دورے میں اس معاملے پر بھی کوئی پیش رفت ہوسکے گی۔
XS
SM
MD
LG