رسائی کے لنکس

پاکستانی جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش36 ہزار تعداد ایک لاکھ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ہاشم ابڑو کا کہنا تھا کہ جیلوں میں قیدیوں کے لیے محض گنجائش بڑھانا یا وسائل فراہم کر دینا ہی مسائل کا حل نہیں بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ جیل انتظامیہ اپنے مجموعی رویوں میں تبدیلی لاتے ہوئے قیدیوں کے ساتھ ہمدردی اور شائستگی پر مبنی سلوک روا رکھے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانونی ماہرین نے پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ یہ بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔

قیدیوں کے حقوق اور امداد کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم شارپ کے سربراہ اور سینئر وکیل لیاقت بنوری نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ جیلوں میں قیدیوں کے حقوق کا باقاعدہ ایک کتابچہ موجود ہوتا ہے جس میں ان کی رہائش،کھانے پینے اور صفائی ستھرائی سمیت دیگر معاملات کی تفصیلات درج ہوتی ہیں لیکن لیاقت بنوری کے مطابق کتابچے میں درج قواعد پر عمل درآمد نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے قیدیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو رکھنا سب سے بنیادی مسئلہ ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تمام جیلوں میں کل چھتیس ہزار قیدیوں کی گنجائش ہے جب کہ ان کی موجودہ تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ ’’صورتحال یہ ہے کہ جگہ کم ہونے کی وجہ سے قیدی شفٹوں میں سوتے ہیں، مناسب بیت الخلا یا پنکھا تو وہ چیزیں ہیں جسے قیدی تعیش میں شمار کرتے ہیں‘‘۔

تنظیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں قیدیوں کے حقوق کے بارے میں تمام قوانین موجود ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی کنونشن بھی موجود ہیں لیکن ان کے مطابق جب تک سیاسی عزم کے ساتھ قوانین کے نفاذ کو یقینی نہیں بنایا جائے گا تب تک صورت حال بہتر نہیں ہو سکتی۔

لیاقت بنوری کے مطابق قیدیوں کے جائز حقوق کے تحفظ کے لیے صرف حکومت ہے نہیں بلکہ عدلیہ کو بھی جامع اصلاحات کو متعارف کرانا چائیے ۔

ہاشم ابڑو وفاقی جوڈیشل اکیڈمی کے ایک سینئر عہدیدار اور سابق مجسٹریٹ ہیں جن کا کہنا ہے کہ جیل قیدیوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے اگرچہ بہت سے اقدامات کیے گئے جس سے کسی حد تک بہتری بھی آئی ہے تاہم یہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ قیدیوں کو جیلوں میں وہ تمام سہولتیں حاصل نہیں جن کے وہ مستحق ہیں۔ ’’ سندھ حکومت جیلوں میں قیدیوں کی صحت اور صفائی کے کتابچے پر عمل کو یقینی بنا رہی ہے اور غیر سرکاری تنظیوں کے ساتھ مل کر قیدیوں کی ذہنی تربیت کا پروگرام بھی جاری ہے تاکہ وہ جیل سے نکلنے کے بعد معاشرے کے کارآمد شہری بن سکیں‘‘۔

ہاشم ابڑو کا کہنا تھا کہ جیلوں میں قیدیوں کے لیے محض گنجائش بڑھانا یا وسائل فراہم کر دینا ہی مسائل کا حل نہیں بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ جیل انتظامیہ اپنے مجموعی رویوں میں تبدیلی لاتے ہوئے قیدیوں کے ساتھ ہمدردی اور شائستگی پر مبنی سلوک روا رکھے۔

XS
SM
MD
LG