رسائی کے لنکس

رمشا کیس: امام مسجد توہینِ مذہب کے الزامات سے بری


خالد جدون پولیس کی حراست میں (فائل فوٹو)
خالد جدون پولیس کی حراست میں (فائل فوٹو)

خالد جدون پر خود اُس ہی کی مسجد کے مؤذن نے الزام عائد کیا تھا کہ اُنھوں نے قرآنی نسخوں کی توہین اور مقامی رہائشی رمشا مسیح کے خلاف شواہد میں رد و بدل کیا۔

پاکستان میں ایک عدالت نے توہینِ مذہب اور شواہد میں رد و بدل سے متعلق مقدمے میں مقامی امام مسجد کو الزامات سے بری کرنے کا حکم دیا۔

اسلام آباد کی نواحی بستی مہرا جعفر کی مسجد کے امام خالد جدون پر خود اُس ہی مسجد کے مؤذن نے الزام عائد کیا تھا کہ اُنھوں نے قرآنی نسخوں کی توہین اور مقامی رہائشی رمشا مسیح کے خلاف شواہد میں رد و بدل کیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج راجہ جواد عباس نے ہفتہ کو مقدمے کی سماعت نمٹاتے ہوئے خالد جدون کے خلاف ناکافی شواہد کی بنا پر ملزم کو باعزت بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔

امام مسجد کے وکیل واجد علی گیلانی نے عدالتی حکم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ توہینِ مذہب کے اس مقدمے کے اندراج سے قبل تمام قوائد و ضوابط پورے نہیں کیے گئے تھے۔

’’ہماری دوسری دلیل یہ تھی کہ تمام شواہد عدالت کے سامنے پیش کیے جا چکے تھے لیکن ایسے کوئی شواہد نہیں تھے جو اس شخص (خالد جدون) کو الزامات سے منسلک کریں۔‘‘

وکیل دفاع نے بتایا کہ خالد جدون نے حلفیہ کہا کہ وہ بے گناہ ہے اور اُس کو پولیس نے مبینہ طور پر حکومتی دباؤ کی وجہ سے اس مقدمے میں ملوث کیا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ سال نومبر میں کم سن عیسائی لڑکی کے خلاف توہین قرآن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اُس کے خلاف دائر مقدمہ خارج کرنے کا حکم دیا تھا۔


رمشا مسیح
رمشا مسیح

رمشا مسیح کی حمایت میں سرگرم رہنے والے آل پاکستان علما کونسل کے سربراہ طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں جج جواد عباس کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کو ’’مایوس کن‘‘ قرار دیا۔ اُن کے بقول وہ اُمید کر رہے تھے کہ اس تمام واقعہ میں ملوث افراد کو سزا ہو گی۔

’’اس سے اُن قوتوں کی حوصلہ افزائی ہو گی جو توہینِ رسالت و مذہب کے قوانین کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں ... میرا سوال تو یہ ہے کہ اگر رمشا مسیح بھی بے گناہ ہے اور خالد جدون بھی بے گناہ ہے تو مجھے بتائیں یہ جو کچھ ہوا تھا اس کا ذمہ دار کون ہے۔‘‘

طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تمام حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ توہین رسالت و مذہب کے خلاف قوانین برقرار رہنے چاہیئں، تاہم اُن کے غلط استعمال کو روکنا ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں پر ان قوانین کا اطلاق مساوی طور پر ہونا چاہیئے۔

خالد جدون نے گزشتہ برس اگست میں رمشا مسیح پر قرآنی نسخوں کو نذرِ آتش کرنے کا الزام لگایا تھا اور پولیس نے علاقہ مکینوں کے دباؤ پر توہین مذہب کا مقدمہ درج کرکے رمشا کو گرفتار کر وایا تھا۔

رمشا مسیح اور اُس کے خاندان کے دیگر ارکان اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کچھ عرصہ پاکستان میں رہے، اور بعد ازاں اطلاعات کے مطابق سلامتی سے متعلق خدشات کے پیش نظر کینیڈا منتقل ہو گئے ہیں۔

پاکستان میں ناقدین توہین مذہب سے متعلق قوانین پر روز اول سے تحفظات اور ان کی منسوخی یا پھر ان میں اصلاحات کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔

ان کا موقف ہے کہ معاشرے کے بااثر افراد خاص طور پر بنیاد پرست مسلمان اس قانون کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں، جب کہ بعض اوقات مشتعل افراد عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی حملہ کر کے ملزمان کو ہلاک کر دیتے ہیں۔
XS
SM
MD
LG