رسائی کے لنکس

کراچی میں قائم جوہری تنصیب کو بند کرنے کا مطالبہ


کینپ (فائل فوٹو)
کینپ (فائل فوٹو)

پلانٹ کے عمر رسیدہ ہونے کے بارے میں خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا چیئرمین عنصر پرویز نے کہا کہ ’’ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پلانٹ اگر محفوظ نا ہوتا تو ہمیں ریگولیڑی اتھارٹی سے لائسنس نا ملتا اور ہم جتنی نگرانی رکھ سکتے ہیں رکھ رہے ہیں۔ ابھی ہمارا خیال ہے کہ کم از کم دس سال یہ پلانٹ چل سکتا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں پہ بجلی کی اتنی سخت ضرورت ہے، 137 میگاواٹ ڈیزائن کا یہ پلانٹ ہے اور کیوں کہ اب یہ پرانا ہو گیا ہے اس لیے اب ہم اس کو90 میگاواٹ کے لیے ہی چلاتے ہیں۔‘‘

جوہری توانائی سے بجلی پیدا کرنے والےکراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ میں رواں ہفتے بھاری پانی کے اخراج کا واقعہ ان دنوں پاکستان میں سول سوسائٹی اور ماحولیاتی ماہرین کے لیے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے اور وہ مطالبہ کر ر ہے ہیں کہ اپنی طبعی عمر پوری کرنے والی چالیس سالہ پرانی اس حساس تنصیب کو فوری طور پر بند کردیا جائے قبل اس کے کہ کوئی نیا حادثہ ملک کی معیشت کی شہ رگ کہلانے والے شہر کراچی کو کسی بڑی مصیبت سے دوچار کر دے۔

جوہری توانائی کے پھیلاؤ کے خلاف سرگرم عمل فزکس کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید نیئر کہتے ہیں کہ کراچی نیوکلئر پاور پلانٹ اس وقت اپنی اضافی دس سالہ زندگی بھی پوری کرچکا ہے اور بھاری پانی کا اخراج بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں یہ پلانٹ آبادی سے بہت دور لگایا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آبادیاں پھیلتے پھیلے اب اُس کے قریب پہنچ گئی۔

’’عام طور پر غریب بستیاں اس کے علاقے میں آتی ہیں اور وہاں کوئی اگر ایسا حادثہ ہوا جس میں تابکاری بڑے پیمانے پر نکلتی ہے تو کراچی کی آبادی بڑے شدید خطرے سے دوچار ہو جائے گی۔ یہ وہ چیز ہے جس کی وجہ سے کراچی کے پلانٹ پر تو خاص طور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اسے جاری بھی رکھنا چاہیئے یا بند کر دینا چاہیئے۔ ‘‘

پروفیسر عبدالحمید نیئر
پروفیسر عبدالحمید نیئر

پروفیسر عبدالحمید نیئر نے کہا کہ کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ سے جتنا فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا وہ حاصل کر لیا گیا۔ ’’اب مزید آگے چلائیں گے تو اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہی ہے۔ اگر سال بھر کی اوسط نکالی جائے تو شاید 50 میگاواٹ بجلی ہی حاصل ہوتی ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کوئی جواز نہیں کہ ایک خطرناک چیز کو آبادی کے قریب اس طرح چلنے دیں۔‘‘

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ (کینپ) سے تابکاری یا کسی بھی طرح کا اخراج سمندری حیات کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے اور سمندری خوراک کے ذریعے انسان بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔

لیکن اٹامک انرجی کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین عنصر پرویز نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں کہا ہے کہ کینپ میں بھاری پانی کا اخراج حادثہ نہیں بلکہ ایک چھوٹا واقعہ ہے جس پر فوری طور پر قابو پا لیا گیا اور خارج ہونے والے بھاری پانی کو دوبارہ استمال کے لیے محفوظ کرلیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پانچ اکتوبر کو پلانٹ کو ضروری انسپکشن کے لیے بند کیا گیا تھا اور بھاری پانی کے اخراج کا واقعہ اس دوران پیش ایا۔

’’جب یہ پلانٹ مرمت اور جانچ کے لیے بند تھا تو اس دوران ایک جگہ سے بھاری پانی لیک ہوا جو معمول کی چھوٹی موٹی لیک تھی اوراس طرح کی صورت حال سے نمٹںے کے لیے بڑا موثر نظام موجود ہے۔ ایک خاص حد سے لیک (اخراج) کے بڑھنے کے بعد فوراً ہنگامی صورت حال نافذ کر دی جاتی ہے اس لیے آپریٹر نے ایمرجنسی نافذ کی تاکہ سارے لوگ باہر آجائیں اور اس کے بعد اخراج پر قابو پا لیا گیا۔ لیکن اب ہم جب دوبارہ اس پلانٹ کو چلانے سے پہلے جانچ کا عمل مکمل کیا جائے گا۔‘‘

انھوں نے بتایا کہ پاکستان نے بین الاقوامی جوہری توانائی کے کمیشن آئی اے ای اے کو کراچی کی ایٹمی توانائی کی تنصیب میں پیش آنے والے واقعہ سے آگاہ کر دیا ہے اور اس کی وجہ سے نہ تو پلانٹ کے ملازمین کو کسی طرح کا جانی نقصان ، نہ کسی طرح کی تابکاری ہوئی اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ہونے کا امکان ہے۔

پلانٹ کے عمر رسیدہ ہونے کے بارے میں خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا چیئرمین عنصر پرویز نے کہا کہ ’’ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پلانٹ اگر محفوظ نا ہوتا تو ہمیں ریگولیڑی اتھارٹی سے لائسنس نا ملتا اور ہم جتنی نگرانی رکھ سکتے ہیں رکھ رہے ہیں۔ ابھی ہمارا خیال ہے کہ کم از کم دس سال یہ پلانٹ چل سکتا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں پہ بجلی کی اتنی سخت ضرورت ہے، 137 میگاواٹ ڈیزائن کا یہ پلانٹ ہے اور کیوں کہ اب یہ پرانا ہو گیا ہے اس لیے اب ہم اس کو90 میگاواٹ کے لیے ہی چلاتے ہیں۔‘‘

اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین نے بتایا کہ دنیا بھر میں بشمول امریکہ میں تیس سال پرانے جوہری پلانٹس کی ضرور ی مرمت کے بعد ان کی عمر میں بیس بیس سال تک کی توسیع کی گئی ہے اور پاکستان بھی بجلی پیدا کرنے والی ان جوہری تنصیبات کو چھپا کر نہیں رکھتا اور ان کے معائنے کے لیے وقت فوقتاً آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو دعوت دی جاتی ہے۔

ڈاکٹر عنصر پرویز نے بتایا کہ اس وقت ملک میں پاکستان میں بجلی کی کھپت 14 سے 18 ہزار میگاواٹ ہے اور ملک میں کینپ سمیت تین جوہری بجلی گھر ہیں جن سے 740 میگاواٹ بجلی قومی گریڈ میں شامل کی جاتی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ چشمہ کے مقام پر قائم دو پلانٹس (چشمہ ون اور ٹو) سے 650 میگاواٹ بجلی جب کہ کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ سے 90 میگا واٹ بجلی حاصل کی جاتی ہے۔

XS
SM
MD
LG