رسائی کے لنکس

کراچی، رمضان میں گداگروں کا مسکن


کراچی، رمضان میں گداگروں کا مسکن
کراچی، رمضان میں گداگروں کا مسکن

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چوراہے کسی بھی قوم کا بیرومیٹر ہوتے ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لئے بھی یہ بات سچ مان لی جائے توکراچی کے موجودہ چوراہوں کا مشاہدہ کرنے پر دل دہل جاتا ہے۔ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس بھیک مانگتے معذور، ہاتھ پھیلاتی خواتین، ناچتے گاتے خواجہ سراوٴں کی ٹولیاں، بھاگتی دوڑتی گاڑیوں کے زبردستی شیشے صاف کرکے پیسوں کا تقاضہ کرتے بچے،پھول ، مذہبی کتابیں، صافیاں اورطرح طرح کی دیگر چیزیں بیچنے والےمفلس، بدحال اور اپنے مستقبل سے بے خبر نوجوان۔۔۔سب کے سب مل کر ملک و قوم کی کیسی تصویر پیش کررہے ہیں، شائد ہی کبھی کسی نے سوچنے کی شش کی ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گداگری بڑھ رہی ہے اوربڑھتے بڑھتے مافیا کا روپ دھار گئی ہے۔ یہ مافیالوگوں کو غربت سے نجات دلانے کا بہانا کرکے بطور پیشہ گداگری کے لئے بھرتی کرتی ہے۔ رمضان آیا نہیں کہ فقیروں کے غول کے غول شہروں کا رخ کرنے لگتے ہیں۔ چونکہ کراچی ملک کا سب سے بڑا اور صنعتی حب ہے اس لئے گداگروں کی زیادہ بڑی تعداد یہیں کا رخ کرتی ہے۔

جب سے رمضان شروع ہوا ہے گداگر مساجد کے باہر، بازاروں ، گلی کوچوں اور چوہراہوں پر پھیل گئے ہیں۔سب سے زیادہ تعداد معذوروں کی ہے جو معذوری کا واسطہ دے کر لوگوں کے دلوں میں ہمدردی پیدا کرکے ان سے زیادہ سے زیادہ رقم بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رمضان میں ویسے بھی صدقہ، خیراة، زکواةاور فطرہ بڑھ چڑھ کر کیا جاتا ہے لہذا مانگنے والوں کی چاندی ہوجاتی ہے ۔ یہ بات دیگر ہے کہ ان میں حقدارکتنے ہوتے ہیں اور کتنے نہیں۔

وائس آف امریکا کے اس نمائندے نے کئی دن تک سروے کرنے کے بعد جو نتائج اخذ کئے ہیں ان کے مطابق اس سال 35 ہزار گداگروں نے کراچی کو اپنا عارضی مسکن بنایا ہے ۔ ان گداگروں میں نومولود یا شیر خواربچے، نوعمراور جوان لڑکیاں،ادھیڑ عمر خواتین، بوڑھی عورتیں ،بزرگ مرد اور خواجہ سرا یعنی ہیجڑے شامل ہیں۔ ہمارے ذرائع کے مطابق گداگری کی جگہوں کی باقاعدہ فروخت اس بار رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہی ہوگئی تھی۔ جگہہوں کی فروخت یومیہ ٹھیکے کی بنیاد پر دی گئی ہے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گداگری قانوناً جرم ہے اور اس کی قانون میں باقاعدہ سزا تجویز ہے اوراس کی روک تھام کے لئے قانونی ایکٹ بھی موجود ہے مگر شہری ، ٹاوٴن حکومت اور پولیس کی ناک کے نیچے کھلے عام بھیک مانگی جارہی ہے۔ پولیس والے خود فقیروں کو بھیک دیتے نظر آتے ہیں جبکہ بعض افراد اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ بعض پولیس والے خود گداگری کے " کاروبار " میں برابر کے شریک ہیں۔

بیشتر گداگر عید کے ایک ہفتے بعد اپنے اپنے علاقوں کو واپس ہو جائیں گے جبکہ کچھ گداگر عیدالاضحی تک کراچی میں قیام کریں گے۔ ذرائع کے مطابق گداگروں کے ٹھیکیدار روزانہ دیہاڑی کی بنیاد پر گداگروں کو کرایہ پر حاصل کرکے ان سے گداگری کراتے ہیں۔

گداگر مافیہ فقیروں کو ان کی "اہلیت "دیکھ کر ان کی مزدوری طے کرتی ہے۔ مثلاً جو لوگ پیدائشی طور پر معذور ہوتے ہیں انہیں سب سے زیادہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پرجو لوگ دونوں ٹانگوں ، دونوں ہاتھوں یا اسی قسم کی کسی پیدائشی معذوری کا شکار ہوں انہیں زیادہ دیہاڑی دی جاتی ہے۔ اس کے بعد خواتین اور پھر بچوں کی باری آتی ہے۔ ایک گداگر کے مطابق رمضان میں گداگر روزانہ 2 سے ڈھائی ہزار اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ کما لیتا ہے۔

گداگروں کو علاقوں کے حساب سے بھی کم یا زیادہ " مزدوری" دی جاتی ہے مثلاً ڈیفنس چورنگی، سب میرین چورنگی ،کلفٹن، پنجاب چورنگی، خیابان شمشیر چورنگی، ٹاور، بولٹن مارکیٹ، صدربازار، بہادرآباد، گرومندر، نمائش، لیاقت آباد، ناظم آباد، ناگن چورنگی، گلشن چورنگی اور نیپا چورنگی وغیرہ ایسے علاقے ہیں جہاں ان گداگروں کو " ذمے داری"دی جاتی ہے جو زیادہ معذور اور رو دھوکر ، شعبدے بازی کے ذریعے یا پھر جذباتی اداکاری کرکے زیادہ بھیک جمع کرنے کا فن جانتے ہوں۔ چونکہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں یا تو زیادہ تر امیر گھرانے آباد ہیں یا پھر یہاں آنے جانے والوں کی بہتات ہوتی ہے۔

کچھ ذرائع نے نمائندے پر یہ انکشاف کیا کہ گداگر مافیا معصوم بچوں کو اغوا کرکے انہیں دانستہ معذور بنادیتی ہے تاکہ لوگوں کی ہمدردی بڑھے اور وہ ترس کھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ بھیک دے سکیں۔ ذرائع کے مطابق اندرون ملک سے اغوا ہونے والی جوان لڑکیاں پہلے تو جسم فروشی پر مجبور کی جاتی ہیں اور بعد ازاں ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے۔ بعض خواتین گداگری کے ساتھ ساتھ بسوں، منی بسوں اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹس میں سوار ہوکر مسافر خواتین سے پرس، زیورات اور موبائل فون چوری کرنے کا فن بھی جانتی ہیں اور جو نہیں جانتیں انہیں مافیا کے کاررندے باقاعدہ ٹرین کرتے ہیں ۔

اب وقت کے ساتھ ساتھ بھیک مانگنے والوں میں خواجہ سرا وٴں کی بھی ایک بڑی اکثریت شامل ہوگئی ہے۔ یہ لوگ اپنے مخصوص فن ،باتوں کی بھرمار اور اوچھی اداوٴں سے چوراہوں پر رکنے والی ہر گاڑی میں سوار لوگوں سے دست سوال کرتے ہیں۔ ایک ایسے ہی خواجہ سرانے نمائندے کو بتایا " سب لوگ خواجہ سرا نہیں ہیں، بلکہ اکثریت مردوں کی ہے جوخواجہ سراوٴں کی وضع قطع اختیار کرکے بھیک مانگ رہے ہیں۔"

اپنے ارد گرد اور سیاسی و معاشرتی حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ سن دوہزار دس کا سیلاب اپنے پیچھے کئی ستم ظریفیاں چھوڑ کرجائے گا ۔ ان ستم ظریفیوں کا ایک حوالہ یہ بھی ہوگا کہ سیلاب کے بعد ملک میں قسمت کی دوہائی دے کر ہاتھ پھیلانے والوں کی تعدادیکدم بڑھ جائے گی۔ پانچ سال پہلے آنے والے زلزلے کے بعد بھی یہی مشاہدہ ہوا کہ غربت بڑھ گئی اور لوگ گداگری پر مجبور ہوگئے تھے۔ سیلاب کی آفت تو اس زلزلے سے کہیں زیادہ ہے۔ "

مستقبل کی آگاہی سے پریشان ایک اور جہاندیدہ شخص کا کہنا تھا :"جس سیلاب نے سر چھپانے کے آسرے چھین لئے ہوں، فصلیں تباہ کردی ہوں، اسکول، کالج، پل، کھیت، مویشی اور یہاں تک کہ خاندانوں کی کفالتیں تک چھین لی ہوں اور کھانے پینے کے لئے بھی کچھ نہ رہا ہو، وہاں بھوک اور گداگری ہی جنم لیتی ہے۔ "

XS
SM
MD
LG