رسائی کے لنکس

فوجی آپریشن کی حمایت اور دہشت گردی کے خلاف ریلی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سیاسی تجزیہ کار نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ چند جماعتیں اب بھی بظاہر دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی سے متعلق واضح موقف اپنانے سے گریزاں ہیں۔

شمالی وزیرستان میں القاعدہ سے منسلک جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائی کو تین ہفتوں سے زائد ہوگئے ہیں اور فوج کے ترجمان کے مطابق تین سو سے زائد ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے علاوہ کئی ٹھکانوں کو تباہ اور مہلک دھماکا خیز آلات بنانے کی تنصیبات اور اسلحہ و بارود پر قبضہ کیا گیا۔

تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی و شدت پسندی کا نیٹ ورک صرف افغانستان سے متصل قبائلی علاقوں تک ہی محدود نہیں بلکہ پاکستان کے دیگر حصوں تک پھیل چکا ہے جس کے خلاف ہر سطح پر ایک منظم کارروائی کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

بظاہر اسی کے پیش نظر کراچی کی ایک بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے شمالی وزیرستان میں لڑنے والے فوجی سپاہیوں سے یک جہتی اور دہشت گردوں کے خلاف اتوار کو شہر میں ایک ریلی کا انعقاد کیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے ایک مرکزی رہنما حیدر عباس رضوی کا کہنا تھا کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندوں کی تعداد ان کے بقول آبادی کے 5 فیصد سے بھی زیادہ نہیں جنھوں نے تشدد کے ذریعے پاکستان کی اعتدال پسند اکثریت کو خوف زدہ کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن کی حمایت کے علاوہ اس ریلی کا اصل مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ ملک کی خاموش اکثریت اب شدت پسندوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔

’’دہشت گردوں کی ایک دفعہ کمر ٹوٹ گئی تو ان لوگوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گا جو مذہبی رواداری کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور جو مذہبی شدت پسندی کا رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد جو بات ہوگی مذاکرے سے ہو سکتی ہے بجائے بندوق و خودکش حملوں کے ذریعے اقلیتی موقف اکثریت پر تھوپا جائے۔‘‘

ایم کیو ایم کی طرف سے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اس اجتماع میں شرکت کی دعوت دی گئی مگر مذہبی و سیاسی جماعت جماعت اسلامی کے کراچی کے امیر نعیم الرحمان کے مطابق فوجی کارروائی کی مخالفت کے باعث وہ اس ریلی میں شرکت نہیں کر رہے۔

’’آپ پہلے اس کی بنیاد تلاش کریں کہ دہشت گرد کہاں سے آئے۔ کس کس نے حمایت کی اور کس وجہ سے یہ مصیبت ہم پر مسلط ہوئی ہے۔ اس کے بغیر ایک چیز پیدا ہو اسے دبانے کے لیے آپ عوام و فوج کا نقصان کریں۔ یہ درست نہیں‘‘

ان کا کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں 10 فیصد تک کمی ہوئی لیکن پھر حکومت اس ’’راہ سے ہٹ گئی‘‘۔

یاد رہے کہ جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر اور سینیئر رہنما پروفیسر محمد ابراہیم بھی طالبان کی مقرر کردہ مذاکراتی کمیٹی کے رکن تھے۔

سیاسی تجزیہ کار نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ چند جماعتیں اب بھی بظاہر دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی سے متعلق واضح موقف اپنانے سے گریزاں ہیں۔

’’یہ ایک مختلف جنگ ہے۔ اس کا ردعمل شہروں میں بھی آ سکتا ہے۔ اچھا ہوتا کہ وزیراعظم قوم سے خطاب میں لوگوں کو اس کے لیے تیار کرتے اور حمایت حاصل کرتے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے اب کچھ آپریشن سے متعلق اعتراضات سامنے آرہے ہیں۔‘‘

نواز شریف انتظامیہ کی طالبان سے مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کے مسئلے کے حل کی تقریباً تین ماہ طویل کوششوں کی ناکامی کے بعد گزشتہ ماہ کے وسط میں فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا۔

فوج کے ترجمان کے مطابق یہ قبائلی علاقہ دہشت گردی کا گڑھ بن چکا تھا اور یہاں سے نا صرف پاکستان بلکہ سرحد پار بھی تشدد کی کارروائیاں کی جاتی تھیں۔

XS
SM
MD
LG