رسائی کے لنکس

پاکستان میں خواندگی کی شرح بڑھانے کا انوکھا طریقہ


پاکستان میں خواندگی کی شرح بڑھانے کا انوکھا طریقہ
پاکستان میں خواندگی کی شرح بڑھانے کا انوکھا طریقہ

اُن علاقوں کے لوگوں کو جہاں دہشت گردی اور اس کےخلاف جنگ کی وجہ سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے ، ڈاکٹر نسیم مشورہ دیتی ہیں کہ وہ بھی اپنے علاقوں میں ایسےمنصوبوں کا آغازکریں۔ اُن کےالفاظ میں، خواندگی بڑھانے کا یہ ایک بے حد آسان اورمؤثرطریقہ ہے، جِس کےلیےمحض ایک گاڑی ، استاد، بلیک بورڈ اور کتاب کی ضرورت ہے

آٹھ ستمبر کوپاکستان سمیت دنیابھرمیں خواندگی کاعالمی دن منایا گیا ۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح میں اضافے کےلیے سرکاری سطح کے علاوہ غیرسرکاری سطح پر بھی کوششیں ہو رہیں ہیں ، اور متعدد ادارے اور افراد اپنے طور پر سرگرم ہیں۔

اِنہی کوششوں سےمتعلق صوبہ سندھ میں ایک ادارہ ’سٹیزنزایجوکیشن ڈولیپمنٹ فاؤنڈیشن‘ ایک انوکھے انداز میں بچوں کو تعلیم مہیاکر رہا ہے۔ اِ س ادارے کی سربراہ ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے’ وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ اُنھوں نے یہ پراجیکٹ اپنے گھر میں چند بچوں کوتعلیم دینےسےشروع کیا جو بعد میں ایک ادارے’ سٹیزنز ایجوکشن ڈولیپمنٹ فاؤنڈیشن‘ کی شکل اختیار کر گیا ۔

آج 25سال بعد، ڈاکٹر نسیم کے گھر کی طرز کے 21ہوم اسکولزسےبچے بنیادی تعلیم سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اُن علاقوں میں جہاں ہوم اسکولز قائم کرنا مشکل تھا وہاں کے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے ڈاکٹر نسیم اور اُن کی ٹیم نے ایک انوکھا طریقہ اپنایا اور وہ ہےموبائل اسکول ، یعنی بس کےذریعے مختلف علاقوں میں جا کر بچوں کوتعلیم مہیا کرنا۔

سٹیزنز ایجوکیشن ڈولیپمنٹ فاؤنڈیشن کے اقدامات یہی نہیں بلکہ بنیادی تعلیم مہیاکرنے کے بعد ، یہ ادارہ بچوں کوگورنمنٹ اسکولوں میں داخلہ دلوانے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے ۔ یہ Projectعام شہریوں کی طرف سے دیے گئے فنڈز سے چلایا جا رہا ہے - سٹیزنز ایجوکیشن ڈولیپمنٹ فاؤنڈیشن کی سربراہ ڈاکٹر نسیم اِن علاقوں کے لوگوں کو جہاں دہشت گردی اور اِس کےخلاف جنگ کی وجہ سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے ، مشورہ دیتی ہیں کہ وہ بھی اپنے علاقوں میں ایسے منصوبوں کا آغازکریں، جو، اُن کےالفاظ میں، خواندگی بڑھانے کا بے حد آسان اور مؤثر طریقہ ہے، جِس کےلیےمحض ایک گاڑی ، استاد ، بلیک بورڈ اور کتاب کی ضرورت ہے -

غیر سرکاری سطح پر اِس قسم کی کوششوں کوعام شہریوں کی جانب سے ، خاص کر اُن لوگوں کی طرف سے جِن کی مالی استطاعت کمزور ہے ، کافی پذیرائی ہورہی ہے۔ اُن کاکہناہے کہ اِس قسم کےغیر سرکاری منصوبے کافی حوصلہ افزا ہیں اور دوسرے شعبوں میں بھی قابلِ تقلید ہیں ، اور اُن کادائرہ پورےپاکستان میں ، خاص کرکم ترقی یافتہ علاقوں میں پھیلایا جا سکتا ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG