رسائی کے لنکس

چولستان میں نمونیا سے 2,000 اونٹ ہلاک، 32 ہزار زیر علاج


چولستان میں نمونیا سے 2,000 اونٹ ہلاک، 32 ہزار زیر علاج
چولستان میں نمونیا سے 2,000 اونٹ ہلاک، 32 ہزار زیر علاج

چولستان میں بسنے والے اکثر گھرانے خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے رہن سہن میں اونٹ کو انتہائی اہمیت حاصل ہے کیوں کہ یہ جانور نا صرف باربرداری کے لیے استعمال ہوتا ہے بلکہ اس سے غذائی ضروریات بھی پوری کی جاتی ہیں۔

صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی صحرائی علاقے چولستان میں ایک ماہ کے عرصے میں دو ہزار اونٹ نمونیا کے باعث ہلاک ہو گئے ہیں تاہم مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بروقت اقدامات کی بدولت اس بیماری کے پھیلاؤں پر خاصی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔

چولستان کے ترقیاتی ادارے کے ایک عہدے دار علی رضا عباسی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اونٹوں میں ”برونکو نمونیا “ کی بیماری کا پہلا کیس تقریباً دو ماہ قبل سامنے آیا تھا جس کی نشان دہی کے بعد مال مویشیوں سے متعلق سرکاری ادارہ تقریباً 32 ہزار اونٹوں کا علاج کر چکا ہے اور گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اونٹوں میں بیماری یا اُن کی ہلاکت کا کوئی نیا واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ عید الضحیٰ سے قبل مقامی گلہ بان اپنے جانور شہروں کی مویشی منڈیوں میں لے کر گئے تھے جہاں بعض جانور ماحول میں تبدیلی کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ عہدے دار کے مطابق فروخت نا ہونے والے بعض متاثرہ جانوروں کو جب چولستان واپس لا کر صحت مند اونٹوں کے درمیان رکھا گیا تو یہ بیماری تیزی سے علاقے میں پھیل گئی۔

گلہ بانوں کا کہنا ہے کہ اونٹوں کا ”برونکو نمونیا “ میں مبتلا ہونا اُن کے لیے ایک غیر معمولی بات تھی کیوں کہ گذشتہ ایک صدی کے دوران چولستان میں ان جانوروں میں یہ بیماری دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔

متاثرہ گلہ بانوں اور عہدے داروں نے بڑی تعداد میں اونٹوں کی ہلاکت کی وجہ بیان کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چولستان میں اونٹ ریوڑ کی شکل میں بغیر نگرانی کے چرائی کرتے ہیں اور اس دوران مالکان سے کم از کم 50 کلومیٹر دور صحرائی علاقے میں نکل جاتے ہیں۔ گلہ بانوں کو جانوروں میں بیماری یا اُن کی ہلاکت کا علم اُس وقت ہوتا ہے جب چھ سات دن بعد اصل تعداد سے کم جانور واپس لوٹتے ہیں۔

حالیہ صورتحال میں بھی یہی ہوا اور جب گلہ بانوں نے گم شدہ اونٹوں کی تلاش شروع کی تو علاقے میں سینکڑوں اونٹ مردہ حالت میں پائے گئے جب کہ ہزاروں سانس کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ گلہ بانوں نے اس بیماری کی اطلاع مقامی انتظامیہ کو دی جس کے بعد مویشیوں سے متعلق ادارے کے عملے نے مختلف علاقوں میں جا کر اونٹوں پر عموماً بھیڑ بکریوں اور گائے بھینسوں کے لیے مخصوص ادویات کا استعمال کیا تاہم یہ اقدام نتیجہ خیز ثابت ہوا۔

ایک مقامی گلہ بان عبدالرزاق نے بتایا ہے کہ اُن کا ایک سو کے لگ بھگ اونٹوں پر مشتمل ریوڑ بھی اس بیماری سے متاثر ہوا اور چند اونٹ ہلاک بھی ہوئے تاہم سرکاری محکمے کی جانب سے متاثرہ جانوروں کے علاج کے بعد وہ مزید نقصان سے بچ گئے۔

علی رضا عباسی کے مطابق چولستان میں مویشیوں سے متعلق سرکاری ادارے کے پاس 17 موبائل شفا خانے ہیں جن میں سے نو استعمال کے قابل نہیں ہیں۔ تاہم حالیہ صورتحال کے بعد ادارے نے اعلیٰ حکام سے ان نو شفا خانوں کو قابل استعمال بنانے کے لیے فنڈ کی فراہمی کے علاوہ اونٹوں میں ”برونکو نمونیا “ سے بچاؤ کے لیے ویکسین کی تیاری کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ ادارہ ان مطالبات کی منظوری کے لیے پر اُمید ہے۔

چولستان میں نمونیا سے 2,000 اونٹ ہلاک، 32 ہزار زیر علاج
چولستان میں نمونیا سے 2,000 اونٹ ہلاک، 32 ہزار زیر علاج

چولستان میں بسنے والے اکثر گھرانے خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے رہن سہن میں اونٹ کو انتہائی اہمیت حاصل ہے کیوں کہ یہ جانور نا صرف باربرداری کے لیے استعمال ہوتا ہے بلکہ اس سے غذائی ضروریات بھی پوری کی جاتی ہیں۔

چولستان کے موسمی حالات اونٹوں کی افزائش کے لیے انتہائی موزوں مانے جاتے ہیں اور گذشتہ سال ہونے والی بارشوں کے بعد اس علاقے میں نا صرف جوہڑوں کی شکل میں مویشیوں کے لیے وافر مقدار میں پانی دستیاب ہوا بلکہ چراگاہوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

علی رضا عباسی کا کہنا تھا کہ ان حالات کے باعث ملحقہ علاقوں خصوصاً رحیم یار خان اور بہاولپور کے گلہ بان بھی اپنے اونٹ چولستان لے آئے ہیں جس کے بعد علاقے میں ان جانوروں کی تعداد لگ بھگ 80 ہزار ہو گئی ہے۔

تاہم لاہور میں قائم ایگری کلچر سینسس آرگنائیزیشن کے عہدے دار عبد الغفار نے بتایا کہ سرکاری سطح پر 2006ء میں کی گئی مال مویشیوں کی گنتی کے مطابق چولستان میں اونٹوں کی تعداد 11,328 تھی۔

XS
SM
MD
LG