رسائی کے لنکس

'مدارس کو قومی دھارے میں لانے کے لیے اقدام خوش آئند ہیں'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے صوبائی حکومت دیگر مدارس کو بھی اعانت فراہم کر رہی ہے اور ملک کے ایک قدیم اور بڑے مدرسے ہونے کے ناطے دارالعلوم حقانیہ اس مالی اعانت کا حقدار ہے۔

پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبرپختونخواہ کی حکومت نے اپنے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایک اہم دینی مدرسے "دارالعلوم حقانیہ" کے لیے 30 کروڑ روپے مختص کیے ہیں جسے مدارس میں تعلیمی نظام بہتر کرنے اور انھیں دور حاضر کے مطابق بنانے کے ضمن میں ایک پیش رفت سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے صوبائی حکومت دیگر مدارس کو بھی اعانت فراہم کر رہی ہے اور ملک کا ایک قدیم اور بڑا مدرسہ ہونے کے ناطے دارالعلوم حقانیہ اس مالی اعانت کا حقدار ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ اکوڑہ خٹک میں واقع اس مدرسے کو پاکستان کی ایک سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے والد نے 1947ء میں قائم کیا تھا اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والوں میں طالبان کے سابق امیروں ملا عمر اور ملا اختر منصور کے علاوہ کئی دیگر رہنما بھی شامل ہیں۔

اسی بنا پر مولانا سمیع الحق کو طالبان کے حلقوں میں ایک معتبر مقام حاصل رہا ہے اور طالبان سے حکومت کے مذاکراتی عمل میں بھی وہ پیش پیش رہے ہیں۔

صوبائی وزیر تعلیم محمد عاطف نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مجوزہ رقم تعلیم کے لیے مختص رقم سے نہیں بلکہ اوقاف کے لیے مختص فنڈز میں سے ادا کی جائے گی۔

"اس کا مقصد مدرسوں کو قومی دھارے میں لانا، ان کا بنیادی ڈھانچہ بہتر کرنا اور حالات بہتر کرنے کی وجہ سے یہ رقم رکھی گئی ہے اور تعلیم کو بہتر کرنے کے لیے۔"

مغرب خاص طور پاکستان میں دینی مدارس کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے جوڑتا آیا ہے لیکن حالیہ برسوں میں حکومت نے مدارس کے باقاعدہ اندراج اور ان میں اصلاحات کے لیے اقدام کرنے کے علاوہ کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث پائے جانے والے مدرسے کے خلاف کارروائی بھی کی ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک کے 90 فیصد سے زائد مدارس کا انتہا پسندی یا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اور یہ درس و تدریس میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

ملک میں مدارس کی تعداد بیس ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔

دفاعی اور سلامتی کے امور کے تجزیہ کار اکرام سہگل کہتے ہیں کہ مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے کے اقدام خوش آئند ہیں اور اس سے دیگر مدارس کو بھی اپنا نظام بہتر کرنے کے لیے تحریک ملے گی۔

"وہ (مدارس) جب دیکھیں گے کہ اس مدرسے کو مالی اعانت مل رہی ہے کہ چیزوں کو بہتر کر رہے ہیں تو وہ بھی اپنا نظام تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ابھی تو ان کو کوئی فائدہ نہیں نا کہ کیوں تبدیلی کریں تو میرا خیال ہے کہ یہ پالیسی ہے اب یہ کس حد تک کامیاب ہوتی ہے یہ میں نہیں کہہ سکتا لیکن ایک کوشش ہے۔"

مدارس کی نمائندہ تنظیمیں بھی اصلاحات پر اتفاق کر چکی ہیں اور مدرسوں میں دور حاضر کے علوم کو شامل کرنے اور ایک جیسا نظام تعلیم بنانے کے لیے بھی ان کی عہدیداروں سے ملاقاتیں جاری ہیں۔

XS
SM
MD
LG