رسائی کے لنکس

پہلی بار پاکستانی آموں کی امریکہ برآمد اس سال متوقع


پہلی بار پاکستانی آموں کی امریکہ برآمد اس سال متوقع
پہلی بار پاکستانی آموں کی امریکہ برآمد اس سال متوقع

ماضی میں امریکہ آم برآمد نہیں کیے گئے جس کی وجہ ماہرین کے مطابق یہ ہے کہ پاکستان میں بعد از پیداوار آموں کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کا فقدان رہا ہے

پاک امریکہ اسٹریٹیجک مذاکرات کے تحت زراعت کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے لیے اس سال پہلی بار پاکستانی آموں کی امریکہ برآمد کا آغاز متوقع ہے جس سے حکام کے مطابق اس صنعت سے جڑے بیس لاکھ افراد کو فائدہ ہوگا، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور ملکی معیشت کو تقویت ملے گی۔

مذاکراتی عمل کے تناطر میں امریکی ادارے یوایس ایڈ اور امریکی محکمہ برائے زراعت نے ایک جامع منصوبہ پر کام تیز کیا جس کے تحت پاکستان میں آموں کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے ملک بھر میں ہزاروں کسانوں کے لیے تربیت کا انعقاد کرنے کے ساتھ انہیں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے روشناس کروایا گیا جب کہ بعد از پیداوار آموں کو محفوظ کرنے کے لیے موجود ڈھانچے کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری بھی کی۔

پاکستان سالانہ پندرہ لاکھ ٹن کے ساتھ دنیا میں آم پیدا کرنے والا پانچواں اور برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ جب کہ مجموعی ملکی پیداوار میں اس صنعت کا حصہ پندرہ کروڑ ڈالر سالانہ ہے .

پاکستان کی برآمدات کا تقریباً اَسی فیصد خلیج ممالک جب کہ دس فیصد یورپی منڈیوں میں جاتا ہے لیکن تجارتی بنیادوں ماضی میں امریکہ آم برآمد نہیں کیے گئے جس کی وجہ ماہرین کے مطابق یہ ہے کہ پاکستان میں بعد از پیداوار آموں کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کا فقدان رہا ہے۔

یوایس ایڈ کے ایک ماہر ڈیوڈ پیکا
یوایس ایڈ کے ایک ماہر ڈیوڈ پیکا

تاھم وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں یوایس ایڈ کے ایک ماہر ڈیوڈ پیکا نے کہا ’’اب پاکستانی آموں کو طویل مدت کے لیے برقرار رکھنے کی ٹیکنالوجی کو اپنایا جا رہا ہے اور عنقریب بڑے پیمانے پر پاکستانی آم امریکہ بر آمد کیے جا سکیں گے‘‘

پاکستانی آموں کے بارے میں اسلام آباد میں منعقد کانفرنس کے بعد میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے وفاقی وزیر خوراک نذرمحمد گوندل نہ کہا ’’سرکاری سطح پر تمام معاملات طے ہو چکے ہیں اب تو صرف بر آمد کنندگان اور امریکی صارفین کو یہ طے کرنا ہے کہ کب اور کتنی مقدار میں آم بر آمد کیے جائیں‘‘۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر آموں کی کاشت ہوتی ہے اور حالیہ سیلاب میں ایک بڑے رقبے پر پھیلے آموں کے باغات کو نقصان ہوا۔ لیکن ملتان مینگو گروؤرز کے سربراہ نصراللہ خان نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ امریکی اداروں نے اس تباہی سے نمٹنے میں جو بروقت امداد فراہم کی اس سے ان کے مطابق تقریبا ساٹھ فیصد تک نقصان سے بچنا ممکن ہوا .

یوایس ایڈ کا کہنا ہے کہ اس کے پروگرام کا مقصد جہاں ایک طرف پاکستانی آموں کی امریکی منڈی تک رسائی کو یقینی بنانا ہے وہیں اس کی مد میں حاصل ہونے والی زر مبادلہ کو موجودہ تقریباً ساٹھ لاکھ ڈالر سے بڑھا کر آئندہ تین سالوں کے دوران تین کروڑ ڈالر کرنا ہے۔

XS
SM
MD
LG