رسائی کے لنکس

جنرل راحیل نے ’10 شدت پسندوں‘ کی سزائے موت کی توثیق کر دی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ''ایچ آر سی پی" کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ موت کی سزا دینے سے جرائم میں کمی آئی ہو۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اپنی مدت ملازمت کے اختتام سے تقریباً ایک ہفتہ قبل 10 مزید شدت پسندوں کی سزائے موت کی توثیق کر دی ہے۔

ان ’عسکریت پسندوں‘ کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے، جہاں سے اُنھیں موت کی سزا سنائی گئی۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے بیان کے مطابق سزائے موت پانے والے شدت پسند سنگین جرائم، بشمول فوجیوں کے سر قلم کرنے، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کے علاوہ تعلیمی اداروں کی تباہی اور مواصلاتی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے میں ملوث تھے۔

بیان کے مطابق حنیفہ کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا اور وہ فوج کے کیپٹن جنید خان، کیپٹن نجم ریاض، نائیک شاہد رسول اور لانس نائیک شکیل احمد کے اغوا اور اُن کے سر قلم کرنے میں ملوث تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ حنیفہ نے مجسٹریٹ کی عدالت میں اعتراف جرم کیا تھا۔

جن دیگر مجرموں کی سزائے موت کی توثیق کی گئی اُن میں سے تیراہ گل،خیال جان اور پایو جان کا تعلق لشکر اسلام سے بتایا گیا جب کہ فوج کے بیان کے مطابق خائستہ محمد، علی رحمٰن اور نثار علی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے متحرک رکن تھے۔

انسانی حقوق کی تنظمیں پاکستان کی حکومت سے سزائے موت روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے، فوجی عدالتوں کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں پر تحفظات کا اظہار بھی کرتی آئی ہیں۔

انسانی حقوق کے موقر ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ''ایچ آر سی پی" کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ موت کی سزا دینے سے جرائم میں کمی آئی ہو۔

’’ہم تو شروع ہی سے فوجی عدالتوں کے خلاف ہیں، کیوں کہ اس میں بہت ساری خامیاں ہیں کیوں کہ مقدمات کی شفافیت سے متعلق سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔‘‘

تاہم حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان کو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے اور عہدیداروں کے بقول فوجی عدالتوں میں ملزموں کو اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔

پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دسمبر 2014 میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا، اس واقعہ میں 132 طلباء سمیت ایک سو پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

اس دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد پر عائد چھ سالہ پابندی کا خاتمہ کرتے ہوئے موت کی سزا پانے والے مجرموں کو پھانسی دینے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ جس کے بعد سے اب تک لگ بھگ چار سو مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔

XS
SM
MD
LG