رسائی کے لنکس

شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع


فائل فوٹو
فائل فوٹو

فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ حکومت اور مسلح افواج کی ہدایت پر ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا اور اسے "ضرب عضب" کا نام دیا گیا ہے۔

پاکستان کی فوج نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کردی ہے۔

فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے اتوار کی شام جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ حکومت اور مسلح افواج کی ہدایت پر شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا اور اسے "ضرب عضب" کا نام دیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ان شدت پسندوں نے شمالی وزیرستان کو اڈہ بنا کر پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ شروع کر رکھی تھی۔ انھوں نے قومی سطح پر زندگی کو مفلوج اور اقتصادی ترقی میں رکاوٹ ڈال رکھی تھی اور ملک کو بے شمار جانی و مالی نقصان پہنچایا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ شدت پسند قبائلی ایجنسی میں بسنے والے امن پسند لوگوں کو دہشت زدہ کرتے آرہے تھے۔

بیان کے مطابق مسلح افواج کو رنگ اور نسل کے امتیاز کے بغیر شدت پسندوں اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کا ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ "پوری قوم کی حمایت اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اشتراک سے ریاست کے ان دشمنوں کو ملک میں کہیں بھی جگہ نہیں دی جائے گی۔"

حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ رواں سال مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کی ایک ہی ملاقات کے بعد یہ تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔

حالیہ دنوں میں شدت پسندوں نے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردانہ کارروائی کر کے سکیورٹی اہلکاروں سمیت متعدد افراد کو ہلاک کیا۔ سب سے مہلک حملہ گزشتہ اتوار کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر کیا گیا جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 25 افراد مارے گئے تھے۔

طالبان کےعلاوہ اس حملے کی ذمہ داری ازبک جنگجوؤں نے بھی قبول کی تھی۔
پاکستانی فوج حالیہ دنوں میں شمالی وزیرستان میں ٹارگٹڈ فضائی کارروائیاں کرتی آئی ہے اور اتوار کو ہونے والی تازہ بمباری میں اس نے ازبک جنجگوؤں سمیت 80 شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔

مرنے والوں میں ایک ازبک شدت پسند کمانڈر ابو عبدالرحمن المانی بھی شامل ہے جس کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کراچی ہوائی اڈے پر حملے کا منصوبہ ساز تھا۔

وفاقی وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں بتایا کہ یہ آپریشن وقت کی ضرورت اور قومی خواہشات کا مظہر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کا ردعمل بھی آئے گا لیکن ملک کو ایک دہائی سے زائد عرصے سے درپیش دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے یہ کارروائی ناگزیر تھی۔

شمالی وزیرستان میں ممکنہ فوجی کارروائی کے پیش نظر حالیہ دنوں میں سینکڑوں افراد پہلے ہی علاقے سے منتقل ہونا شروع ہوگئے تھے۔

پاکستانی فوج نے اس سے قبل 2009ء میں سوات میں راہ راست اور جنوبی وزیرستان میں راہ نجات کے نام سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی تھیں۔

شمالی وزیرستان میں القاعدہ سے منسلک ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کی آماجگاہیں ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ایک عرصے سے پاکستان پر ان شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کے لیے زور دیتے آئے ہیں۔
XS
SM
MD
LG