رسائی کے لنکس

کچھ ’لاپتہ‘ افراد ہفتہ کو عدالت میں پیش کر دیں گے: خواجہ آصف


وزیر دفاع خواجہ آصف (فائل فوٹو)
وزیر دفاع خواجہ آصف (فائل فوٹو)

وزیر دفاع نے واضح کیا کہ اس وقت کوئی بھی شخص فوج کی حراست میں نہیں اور محض دو افراد سول انتظامیہ کے زیر نگرانی قائم خصوصی حراستی مراکز میں قید ہیں۔

پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے مشتبہ طور پر جبری گمشدگی کے شکار افراد میں سے 14 کو ہفتہ کو جسٹس امیر ہانی مسلم کے رو برو پیش کرنے کا حکم دیا ہے، جب کہ حکومت نے اس پر تعمیل کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں قائم عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے یہ حکم ’لاپتہ افراد‘ سے متعلق مقدمے کی جمعہ کو سماعت کے بعد دیا، جس میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے 35 متعلقہ افراد کی تفصیلات عدالت میں پیش کیں۔

خواجہ آصف نے واضح کیا کہ اس وقت کوئی بھی شخص فوج کی حراست میں نہیں اور محض دو افراد سول انتظامیہ کے زیر نگرانی قائم خصوصی حراستی مراکز میں قید ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ آزاد زندگی گزارنے والوں میں سے سات افراد ایسے ہیں جنھیں عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے جب کہ آٹھ افراد رہائی کے بعد افغانستان کے صوبہ کنڑ منتقل ہو گئے۔

اُن کے بقول تین افراد پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جب کہ ایک سعودی عرب میں موجود ہے، البتہ 12 افراد کے بارے میں جزوی یا کوئی معلومات دستیاب نہیں۔ گزشتہ سماعت میں عدالت کو دو افراد کی دورانِ حراست طبعی موت کے بارے میں مطلع کیا جا چکا ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ہدایت کی کہ سات آزاد افراد کے علاوہ پانچ لاپتہ اور دو زیرِ حراست افراد کو ہفتہ کی صبح بینچ کے رکن جسٹس امیر ہانی مسلم کے چیمبر میں پیش کیا جائے، جب کہ افغانستان اور وزیرستان میں موجود افراد کی پیشی کے لیے حکومت کو 9 دسمبر بروز پیر تک کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی گئی۔

کمرہ عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ جن افراد کا کھوج نہیں لگایا جا سکا ہے ان کے بارے میں بھی معلومات چند روز میں دستیاب ہو جائیں گی۔

’’کل (ہفتہ کو) کچھ لوگ جو خیبرپختونخواہ کے حراستی مراکز میں ہیں اور جو معمول کی زندگی گزار رہے ہیں وہ عدالت کے سامنے پیش ہو جائیں گے ... ہم کل بھی عدالت کے احکامات کے پابند تھے، آج بھی پابند ہیں، انشا اللہ (عدالتی احکامات کی) تعمیل ہوگی۔‘‘

مشتبہ طور پر جبری گمشدگی کا شکار افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم کارکن آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالتِ کے احاطے میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ جسٹس امیر ہانی ان افراد سے یہ ضرور دریافت کریں کہ آیا اُنھیں افغانستان سے اسلام آباد منتقل کیا گیا یا وہ خیبر پختونخواہ کے علاقے مالاکنڈ میں قائم حراستی مرکز میں قید تھے، کیوں کہ وہ یقین سے کہہ سکتی ہیں کہ یہ افراد زیرِ حراست ہی تھے۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی تفصیلات پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔

’’آپ نے خود دیکھا کے وقتاً فوقتاً تردید کی گئی، پہلے یہ کہتے تھے (متعلقہ افراد) ہمارے پاس نہیں ہیں، اس کے بعد آہستہ آہستہ مان بھی گئے اور اب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ لے کر آ رہے ہیں، تو یہ بھی اس جھوٹ کا حصہ ہے جو یہ مرحلہ وار بولتے ہیں اور جب کچھ بن نہیں پڑتا یا چیف صاحب کا دباؤ قائم رہتا ہے تو وہ آگے سچ بولنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘‘

تاہم وزیرِ دفاع کا کہنا ہے کہ حالیہ چند برسوں میں صورتحال تبدیل ہوئی ہے اور تمام ادارے اعلیٰ عدلیہ کے احکامات پر ’’من و عن‘‘ عمل درآمد کر رہے ہیں۔

’’ہم اس منزل کی طرف جا رہے ہیں جہاں پہ مہذب معاشرہ ہوگا، جہاں قانون اور آئین کی حکمرانی ہو گی، جہاں لوگ اٹھائے نہیں جائیں گے، اگر کسی کے خلاف الزامات ہیں تو قانون اور قاعدے کے مطابق ان پر مقدمات چلائے جائیں گے۔‘‘

اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ غلط بیانی کے ذریعے عدالت اور حکومت کو گمراہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، تاہم اُنھوں نے کسی فرد یا ادارے کی نشاندہی نہیں کی۔
XS
SM
MD
LG