رسائی کے لنکس

ججوں کی نظر بندی کیس کا مستقبل ابہام کا شکار


پرویز مشرف
پرویز مشرف

بعض قانون دانوں کی یہ بھی رائے ہے کہ عدالت اعظمیٰ کے ججوں کی نظر بندی سے متعلق اس معاملے میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار بھی مدعی بن سکتے ہیں۔

رواں سال خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے ملک واپس آنے والے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو مختلف عدالتوں میں مقدمات کا سامنا ہے جن میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور بلوچ بزرگ سیاستدان اکبر بگٹی کے قتل کے علاوہ ججوں کی نظر بندی اور آئین توڑنے جیسے الزامات شامل ہیں۔

تاہم سابق صدر کی طرف سے ججوں کو2007 میں مبینہ طور پر نظر بند کرنے کے خلاف درخواست دائر کرنے والے وکیل چوہدری اسلم گھمن نے اس مقدمے کی پیروی سے انکار کر دیا ہے۔ اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ان کے فیصلے کی بنیاد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا مفاہمتی رویہ ہے۔

’’مشرف کے آنے کے بعد میاں صاحب کہتے رہے ہیں کہ ان کے ساتھ جنھوں نے بھی زیادتیاں کی ہیں وہ معاف کرتے ہیں اور مشرف کے حوالے سے تو ان کا یہی موقف رہا ہے۔ میں نے دیکھا کہ (نئی حکومت کے متوقع) وزیراعظم پاکستان اس معاملے کو نہیں اٹھاتے تو میں بھی چھوڑ دوں۔‘‘

اسلم گھمن کا کہنا تھا کہ عام طور پر مدعی کے پیچھے ہٹ جانے کے بعد مقدمہ ختم ہوجاتا ہے تاہم ججوں کی نظر بندی کا معاملہ ہونے کے باعث ممکن ہے کہ عدالت اپنی کارروائی کو جاری رکھے۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت بدھ کو پرویز مشرف کی ضمانت کی درکواست کی سماعت کرے گی۔ استغاثہ کے وکیل محمد طیب پہلے ہی اس مقدمے سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔

اسلم گھمن کا کہنا ہے ’’اب تو نیا استغاثہ کا وکیل آئے گا اب دیکھنا ہے وہ کیا موقف اختیار کرتا ہے اور اس کی روشنی میں عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے؟‘‘

پرویز مشرف پر الزامات ہیں کہ انہوں نے نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلٰی عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کیا۔

بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کی پیروی کرنا اب ریاست کی ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل شعیب شاہین کہتے ہیں۔

’’یہ کریمینل مقدمہ ہے اور پھر ریاست کی ذمہ داری بن گئی ہے کہ اس کی پیروی کرے۔ پھر (اسلام آباد ہائی کورٹ کے ) جسٹس شوکت صدیقی نے ضمانت کی درخواست کی شنوائی کے دوران پولیس کو دہشت گردی کی شقیں شامل کرنے کی ہدایت دی۔ تو اب تو یہ دہشت گردی کا مقدمہ بن گیا ہے اور اس میں صرف گھمن صاحب کے پیچھے ہٹنے سے مقدمہ ختم نہیں ہوگا۔‘‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں ’’مصدقہ‘‘ شواہد اور گواہان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ’’عدالت ادھر ادھر کی باتوں پر نہیں آگے بڑھتی۔ ہاں اگر سپریم کورٹ کے رجسٹرار کہیں کہ وہ خود وہاں گئے اور سب کچھ دیکھا تو پھر تو ٹھیک ہے۔‘‘

بعض قانون دانوں کی یہ بھی رائے ہے کہ عدالت اعظمیٰ کے ججوں کی نظر بندی سے متعلق اس معاملے میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار بھی مدعی بن سکتے ہیں۔

پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے بھی متعدد درخواستیں عدالت اعظمیٰ میں زیر سماعت ہیں جس پر تا حال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ نگراں حکومت پہلے ہی سابق صدر کے خلاف آئین توڑنے کے الزامات پر غداری کی کارروائی شروع کرنے سے بڑے واضح انداز میں انکار کر چکی ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو یہ بھی کہا ہے کہ اس کارروائی کا اختیار صرف وفاقی حکومت کا ہے نا کہ سپریم کورٹ کا۔
XS
SM
MD
LG