رسائی کے لنکس

غداری کیس: مشرف کا عدالت میں پیش ہونے کا امکان نہیں


پرویز مشرف
پرویز مشرف

وکیل صفائی الیاس صدیقی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ انہوں نے اپنے موکل سے اسپتال میں ملاقات کی اور ان کی صحت اس قابل نہیں کہ وہ پیر کو غداری کے مقدمے کی کارروائی کرنے والی خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوں۔

سابق صدر کے وکلاء کے مطابق افواج پاکستان کے ادارہ برائے امراض قلب میں ڈاکٹرز پرویز مشرف کی صحت کا تاحال معائنہ کررہے ہیں اور ان کی بیماری کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

جمعرات کو دل میں اچانک تکلیف کی شکایت پر فوج کے سابق سربراہ کو اسپتال لے جایا گیا اور مقامی ذرائع ابلاغ کے بقول ان کے وکلاء کو بھی پرویز مشرف تک رسائی نہیں دی گئی۔

تاہم وکیل صفائی الیاس صدیقی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ انہوں نے اپنے موکل سے اسپتال میں ملاقات کی اور ان کی صحت اس قابل نہیں کہ وہ پیر کو غداری کے مقدمے کی کارروائی کرنے والی خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوں۔

’’میں جس وقت ملا اس دوران کوئی ڈاکٹر ان کے پاس نا آیا۔ ان کی آواز تھوڑی کمزور تھی۔ ایسی نا تھی جیسے عام آدمی کی ہوتی ہے اور وہ کمزوری محسوس کررہے تھے۔ عام حالت میں تو عدالت صرف بیماری کی درخواست پر سماعت ملتوی کرتی ہیں یہ تو اسپتال میں ہیں۔‘‘

وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو عدالتی کارروائی میں حاضری سے استثنیٰ کی باقاعدہ درخواست بھی کی جائے گی۔ پرویز مشرف اس سے پہلے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر تین رکنی عدالت کے سامنے پیش نا ہوئے اور استغاثہ کے وکلاء فوج کے سابق سربراہ کی عدم حاضری پر ان کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کا بھی مطالبہ کر چکے ہیں جسے عدالت نے تسلیم نہیں کیا۔

پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007ء میں آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں ججوں کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے۔

تاہم ان کی طرف سے حکومت کی قائم کردہ اس خصوصی عدالت پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا گیا کہ اس کی تشکیل آئین میں درج طریقہ کار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کی گئ اور ان ججوں کو مقرر کیا جو کہ پرویز مشرف کے بقول ان کے خلاف تعصب رکھتے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر قانون اور پرویز مشرف کے وکیل خالد رانجھا کا کہنا تھا

’’پہلے کورٹ اس بات کا تعین کرے کہ وہ اس سماعت کا اختیار رکھتی ہے۔ جب آپ اس عدالت کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتے تو پھر فرد جرم سے پہلے ہی آپ کو اعتراضات کرنا پڑیں گے کیونکہ وہ کہیں گے کہ ایک دفعہ آپ نے ان کا دائرہ اختیار تسلیم کر لیا تو پھر اعتراضات نہیں کر سکتے۔‘‘

بعض قانونی ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ عدالت سے متعلق اعتراضات کو دور کیے بغیر سابق فوجی سربراہ پر فرد جرم عائد کرنا اس پورے عمل کی شفافیت کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔ معروف قانون دان ایس ایم ظفر کہتے ہیں۔

’’جب کبھی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو بڑے لوگ، سیاسی لوگ ان مقدمات کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں آپ نے جو کرنا ہے کریں ہم تو آپ کو مانتے نہیں، کارروائی نہیں مانتے۔ تو ایسے مقدمے کو پھر جوڈیشل مرڈر کہا جاتا ہے۔‘‘

ہائی کورٹ کے سابق جج طارق محمود کہتے ہے کہ اس کا قانونی راستہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔

’’جہاں تک تعصب کی بات ہے وہ تو انہیں قانوناً جواب دینا ہوگا۔ دیکھے نا اگر آپ کسی عدالت جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ پر اعتماد نہیں اور وہ آپ سے متعلق تعصب رکھتی ہے تو اسے جواب دینا چاہئے۔ اور وہ دیں گے اسی پر تو بحث ہو رہی ہے۔‘‘

مقامی میڈیا کی خبروں کے مطابق پرویز مشرف کی اہلیہ صہبا مشرف نے وزارت داخلہ میں ایک درخواست دی ہے کہ سابق فوجی صدر پر سے ملک سے باہر جانے کی پابندی اٹھائی جائے تاکہ علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی صورت میں کوئی دشوری نا ہو۔

حکومت کے عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ذاتی رنجشں کی وجہ سے نہیں بلکہ آئین کے تحت کیا گیا۔ ہفتہ کو ایک بیان میں وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ عدالت کو کرنا ہے کہ تین نومبر 2007ء کو پاکستان کی ریاست کی توہین ہوئی یا نہیں۔
XS
SM
MD
LG