رسائی کے لنکس

پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانا ’دائرہ اختیار میں نہیں‘


نگراں وفاقی حکومت نے پیر کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کی کارروائی شروع کرنا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔

پاکستان کی نگراں وفاقی حکومت نے پیر کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کی کارروائی شروع کرنا
ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔

وفاق کے ایک وکیل، دل محمد علی زئی نے عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیر کو پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق درخواستوں پر حکومت کا موقف پیش کیا۔

جس میں کہا گیا کہ پارلیمانی طرز حکومت میں نگراں حکومت کا کام روزمرہ کے اُمور کو چلانا ہے اور اس لیے نا صرف اُسے ’’متنازع‘‘ اقدامات سے گریز کرنا چاہیئے بلکہ ’’ایسے کسی عمل کا اعادہ بھی نہیں کرنا چاہیئے جسے آئندہ منتخب حکومت اگر چاہے بھی تو واپس نا لے سکے‘‘۔

اپنے جواب میں وفاق نے 1988 کے ایک عدالتی فیصلے کی مثال بھی دی جس میں نگراں حکومت کے کردار کو روزمرہ کے امور تک محدود کیا گیا اور اُسے غیر جانبدار رہنے کی ہدایت کی تھی۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس بنیاد پر موجودہ حکومت نے عالمی مالیاتی ادروں اور کسی امداد دینے والے ادارے سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں کیا۔

وفاق نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ’’یہ نگراں حکومت کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ آرٹیکل 6 کے معاملے میں کوئی موقف اختیار نا کرے جو شاید سایسی جماعتوں اور ریاست کے اداروں کے لیے متنازع عمل ثابت ہو۔‘‘

سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دل محمد علی زائی نے کہا کہ ’’اس معاملے میں جلدی کی ضرورت نہیں۔ اب تو انتخاب میں 20 دن ہی باقی ہیں۔ یہ معاملہ منتخب حکومت کے پر چھوڑ دینا چاہیئے کہ وہ اس پر کیا مواقف اختیار کرتی ہے۔‘‘

نگراں حکومت کا کہنا تھا کہ سلامتی کے خدشات کے پیش نظر اس وقت ان کے لیے سب سے بڑا چلینج انتخابات کا انعقاد ہے اور 20 ہزار سے زائد امیدواروں کو سیکیورٹی فراہم کرنا پر ان کی تمام تر توجہ کا محور ہے۔

تاہم ایک درخواست وکیل شیخ احسن الدین نے نگراں حکومت کے موقف کو ایک ’’بہانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت بظاہر ’’غیر جانبدار‘‘ نہیں اور سابق فوجی صدر کو غداری کی کارروائی سے بچانا چاہتی ہے۔

’’انہوں نے ملک کے آئین کے دفاع کا حلف اٹھایا ہے۔ نگراں حکومت کا حلف کسی منتخب حکومت کے حلف سے مختلف نہیں۔ انہیں کارروائی کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔‘‘

پرویز مشرف کے وکلاء نے عدالت عظمیٰ کے بینچ میں تبدیلی پر اعتراض کرتے ہوئے استدعا کی عدالت انھیں اپنے موکل سے ملنے کی اجازت دے تاکہ وہ اس بارے میں ہدایت حاصل کر سکیں۔

تاہم وکیل احمد رضا قصوری کے بقول جیل حکام نے عدالت کے احکامات کے باوجود پرویز مشرف سے اُن کی ملاقات نہیں کروائی۔

’’ہم نے فل کورٹ کا مطالبہ کیا تھا ناکہ اس تین رکنی بینچ کا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے پہلے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت پڑی تو یہ بنچ اسے سننے کا اہل نا ہو گا۔‘‘

سپریم کورٹ کے 14 رکنی بینچ نے 2009 میں اپنے فیصلے میں آئین کو معطل کرنے اور ایمرجنسی کے نفاذ پر سابق صدر کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے کہا تھا اور قواعد و ضابط کے اب 14 سے زائد ججوں پر مشتمل بینج ہی اس پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔

احمد قصوری نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ ممکن ہے کہ زیر حراست سابق صدر پر تشدد کیا جا رہا ہے اس لیے ان کے بقول ان کے خاندان کے افراد سمیت کسی کو ان سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔

انھوں نے عدالت سے استدعا کی کہ افواج پاکستان کے ڈاکٹرز پر مشتمل ایک ٹیم سے پرویز مشرف کا طبی معائنہ کروایا جائے۔

منگل تک سماعت ملتوی کرنے سے پہلے دفاع کے وکلاء کی استدعا پر عدالت نے متعلقہ حکام کو ہدایت جاری کی کہ پرویز مشرف کی اُن کے وکلاء سے ملاقات کروائی جائے۔

اعلٰی عدلیہ ججوں کی نظر بندی سے متعلق ایک مقدمے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق فوجی صدر کی حفاظتی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے اُن کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔
XS
SM
MD
LG