رسائی کے لنکس

خصوصی عدالت غیر جانبدار نہیں، مشرف کی ترجمان کا الزام


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

آسیہ اسحاق کا کہنا ہے کہ اس عدالت کو سابق فوجی صدر کے خلاف غداری کی کارروائی شروع کرنے سے روکنے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کی ترجمان آسیہ اسحاق کا کہنا ہے کہ غداری کے مقدمے کی شنوائی کے لیے نواز شریف حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی خصوصی عدالت ’’غیر جانبدار‘‘ نہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اس عدالت کو سابق فوجی صدر کے خلاف مقدمہ چلانے سے روکنے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بدھ کو گفتگو کرتے ہوئے آسیہ اسحاق نے کہا کہ پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے رہنما اور قانونی ٹیم اس پر مشاورت کر رہی ہے کیونکہ توقع نہیں کی جا رہی کہ اعلیٰ عدلیہ کے تین ججوں پر مشتمل ٹرائبیونل منصافانہ انداز میں کاروائی چلائے گا۔

’’حکومت کی بدنیتی اس سے واضح ہے کہ وہ فوراً (سپریم کورٹ کے) چیف جسٹس کے پاس گئے جو کہ خود حکومت کے بقول متاثر ہوئے۔ چاہیئے تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس جاتے اس ٹرائیبونل کی تشکیل کے لیے۔ یہ جج تو خود چیف جسٹس کے منتخب کردہ ہیں۔‘‘

وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ روز تھائی لینڈ کے دورے سے واپسی کے فوراً بعد چیف جسٹس کی طرف سے بھجوائے گئے پانچ ناموں میں سے تین ججوں کو اس خصوصی عدالت کے لیے منتخب کیا، جس کی سربراہی سندھ ہائی کورٹ کے جج فیصل عرب کر رہے ہیں۔ جسٹس عرب ان معزول ججوں میں شامل تھے جنھوں نے پرویز مشرف کے عبوری آئین کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا تھا۔

پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انھوں نے 2007ء میں آئین معطل کرکے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں ججوں کو نظر بند کرنے کا حکم جاری کیا۔

پاکستان کی تاریخ پہلی مرتبہ کسی سابق فوجی سربراہ کے خلاف آئین توڑنے پر غداری کی کارروائی شروع ہونے جا رہی ہے۔

تاہم بعض سینئیر سیاسدانوں اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے معاون کاروں کو اس کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ اس مقدمہ کا دائرہ صرف 2007ء میں ایمرجنسی کے نفاذ تک محدود نا رکھا جائے۔

پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی ترجمان آسیہ اسحاق بھی اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اگر آئین کا آرٹیکل 6 پڑھیں تو اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ اس کا نفاذ مارچ 1956ء سے ہوگا۔

’’تو آپ صرف اپنی آسانی کے لیے (اور) کیونکہ آپ کی دشمنی موجود ہے، پرویز مشرف کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔‘‘

ان کا یہ بھی الزام تھا کہ سابق فوجی صدر کے خلاف کارروائی کا فیصلہ حکومت نے شدت پسندوں کو ’’خوش‘‘ کرنے کے لیے کیا ہے۔

رواں ماہ امریکی ڈرون حملے مین حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ’’طالبان نے حکومت پنجاب کو دھمکی دی ہے تو اس کے بعد تو یہ چارے کے طور پر کچھ نا کچھ طالبان کے سامنے پیش کریں گے تاکہ وہ ٹھنڈے رہیں۔‘‘

مسلم لیگ (ن) حکومت کے وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کہہ چکے ہیں کہ غداری کے مقدمے کا فیصلہ ’’اپنے وقت پر‘‘ ہوا ہے۔

دریں اثنا نواز حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی ایک ٹیم تشکیل دے دی ہے جو کہ 90 کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تحتہ الٹانے کی سازش کی تحقیات کرے گی۔

اس وقت کے فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہان پر الزام ہے کہ انھوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کے لیے ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیا تھا۔

اس سازش میں موجودہ حکمران جماعت کے ملوث ہونے کے بھی الزامات سامنے آئے ہیں، مگر مسلم لیگ (ن) ان کی تردید کرتی ہے۔
XS
SM
MD
LG