رسائی کے لنکس

طورخم کے راستے نیٹو ٹریفک بدستور معطل


پاکستانی سرحدی محافظوں کو بھی نیٹو رسد سے لدے ٹرکوں کے قافلوں کی حفاظت پر معمور کیا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو)
پاکستانی سرحدی محافظوں کو بھی نیٹو رسد سے لدے ٹرکوں کے قافلوں کی حفاظت پر معمور کیا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو)

خیبر پختون خواہ کے وزیرِ اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ نیٹو سپلائی ’’صورت حال نہ کہ حکومت کی وجہ سے رکی ہوئی ہے‘‘۔

پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکام کے درمیان اختلافات کے باعث طورخم کے راستے افغانستان میں نیٹو افواج کو رسد کی ترسیل مسلسل کئی روز سے معطل ہے۔

سات ماہ سے زائد عرصے تک کی بندش کے بعد حکومتِ پاکستان نے جولائی کے پہلے ہفتے میں نیٹو کے ٹرکوں کے لیے چمن اور طورخم کی سرحد دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا تھا۔

مگر کراچی کی بندرگاہ سے سامان لانے والے ایک قافلے پر گزشتہ ہفتے خیبر ایجنسی میں مہلک حملے کے بعد سے سلامتی کے خدشات کے باعث آمد و رفت کا یہ سلسلہ ایک بار پھر رک گیا ہے۔

جمرود بازار میں دن دھاڑے کیے گئے حملے میں تین ٹرک تباہ جب کہ ایک ڈرائیور ہلاک اور اس کا ساتھی زخمی ہو گئے تھے۔
ہم مخصوص باقاعدہ نظام کے تحت اور مخصوص اوقات میں ٹرکوں کی آمد و رفت چاہتے ہیں تاکہ خیبر پختون خواہ کی حدود میں داخل ہوتے ہی ہماری پولیس ان کی حفاظت کی ذمہ داری نبھا سکے۔
میاں افتخار حسین


خیبر پختون خواہ کے وزیرِ اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ نیٹو سپلائی ’’صورت حال نہ کہ حکومت کی وجہ سے رکی ہوئی ہے‘‘۔

اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے ایک خط کے ذریعے وفاقی وزارتِ داخلہ سے درخواست کر رکھی ہےکہ جن صوبوں سے نیٹو کے ٹرک گزرتے ہیں ان کے متعلقہ عہدے داروں کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے ان قافلوں کی حفاظت اور آمد و رفت کے لیے اتفاق رائے سے ایک حکمت عملی ترتیب دی جائے۔

لیکن بقول صوبائی وزیر اطلاعات کے وفاقی حکومت نے 10 روز گزرنے کے باوجود خط کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
خیبر پختون خواہ کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین (فائل فوٹو)
خیبر پختون خواہ کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین (فائل فوٹو)

’’ہم کہتے ہیں کہ سندھ سے اتنی ہی تعداد میں گاڑیاں روانہ کی جائیں جن کی پنجاب حفاظت کر سکے، پنجاب سے اتنی گاڑیاں ہمارے صوبے کو بھیجی جائیں جو ہم برداشت کر سکیں۔ اس طرح ہر صوبے کو اپنی حدود میں نیٹو ٹرکوں کے لیے حفاظتی انتظامات کرنے میں سہولت ہو گی۔ ہم مخصوص باقاعدہ نظام کے تحت اور مخصوص اوقات میں ٹرکوں کی آمد و رفت چاہتے ہیں تاکہ خیبر پختون خواہ کی حدود میں داخل ہوتے ہی ہماری پولیس ان کی حفاظت کی ذمہ داری نبھا سکے۔‘‘

اُدھر نیٹو کے لیے رسد لے جانے والے ٹرکوں کی نمائندہ تنظیم کے جنرل سیکرٹری نواب شیر آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک ان قافلوں کے لیے پاکستانی حکام مناسب حفاظتی اقدامات کا بند و بست نہیں کرتے وہ سامان کی ترسیل کی خاطر اپنے لوگوں کی جان خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔

’’پہلے تو ہمیں معلوم تھا کہ طالبان ان حملوں میں ملوث تھے لیکن دفاعِ پاکستان کونسل کی ایسی کارروائیاں کرنے کی کھلے عام دھمکیوں کے بعد خطرات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔‘‘

اُنھوں نے نیٹو کے لیے رسد کے قافلوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے علاوہ سپلائی کے مروجہ طریقہ کار میں بد انتظامی اور بدعنوانی ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا تاکہ ٹرک مالکان اور ڈرائیور حضرات سکھ کا سانس لے سکیں۔
جب تک ہمیں مکمل حفاظت کی ضمانت نہیں دی جائے گی ہم سپلائی کا کام دوبارہ شروع نہیں کریں گے۔
نواب شیر آفریدی


’’ایک آئل ٹینکر یا کنٹینر پر سامان لاد کر جب کراچی سے روانہ کیا جاتا ہے تو طورخم بارڈر تک پولیس بھتہ وصول کرنا شروع کر دیتی ہے جو ایک لاکھ تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ کون ہیں؟ کس لیے لے رہے ہیں؟ کس کے کہنے پر لے رہے ہیں؟‘‘

نواب شیر آفریدی نے کہا کہ نیٹو کو رسد کی ترسیل کے کاروبار سے منسلک ہزاروں خاندان سات ماہ سے زائد عرصے تک اس کی بندش کے سبب فاقوں پر مجبور ہو گئے ہیں مگر اس کے باجود چند ہزار روپوں کی خاطر یہ لوگ اپنی جان خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔

’’جب تک ہمیں مکمل حفاظت کی ضمانت نہیں دی جائے گی ہم سپلائی کا کام دوبارہ شروع نہیں کریں گے۔ اگر حکام اس ضمن میں کوئی حکمت عملی وضع کر رہے ہیں تو انھیں چاہیئے کہ ہم سے بھی مشورہ کریں کیونکہ خطرناک علاقوں کی نشاندہی ہم سے بہتر کوئی اور نہیں کر سکتا۔‘‘

اُدھر بلوچستان میں حکام کا کہنا ہے کہ چمن کے راستے افغانستان جانے والے نیٹو ٹرکوں پر کوئی بندش نہیں ہے مگر بظاہر سلامتی کے خدشات کی وجہ سے وہاں بھی ان کی تعداد تیزی سے کم ہوئی ہے۔
XS
SM
MD
LG