رسائی کے لنکس

لاہور اسکول آف آرٹس سے نیشنل کالج آف آرٹس تک


لاہور اسکول آف آرٹس سے نیشنل کالج آف آرٹس تک
لاہور اسکول آف آرٹس سے نیشنل کالج آف آرٹس تک

نیشنل کالج آف آرٹس 1958ئمیں برطانوی دور کے ادارے میواسکول آف آرٹس کو تبدیل کرکے بنایا گیا تھاجبکہ میو اسکول آف آرٹس یہاں اُنیسویں صدی کے وسط میں قائم ہونے والے لاہورا سکول آف آرٹس کا نام تبدیل کرکے وائسرائے ہند لارڈ میو کی یاد میں قائم ہوا تھا۔ لارڈ میو کو افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک پٹھان شیرِعلی نے1872ء میں جزائر انڈیمان کے اُن کے سرکاری دورے کے دوران قتل کردیا تھا۔ شیرِ علی پنجاب پولیس کا ملازم تھا اور اس نے اپنے ایک قبائلی دشمن کا خون کیا تھا۔ اس جرم میں اس کو کالے پانی کی سزا ہوئی جس کو وہ بلا جواز سمجھتا تھا۔ لارڈ میو کے جزائر انڈیمان کے دورے میں شیرِ علی نے بڑے ڈرامائی انداز میں چھری کے وار کرکے وائسرائے کو قتل کیا۔ برطانوی راج کا قتل کا یہ انوکھا واقعہ تاجِ برطانیہ کی تاریخ میں ایک المناک باب کے طور پر درج ہے۔

ڈاکٹر اعجاز انور نیشنل کالج آف آرٹس میں ہسٹری آف آرٹ اینڈ آرکیٹکچر کے ایسویسی ایٹ پروفیسر رہے ہیں اور اس ادار ے سے ریٹائرڈ ہونے سے قبل وہ یہاں کی آرٹ گیلری کے بھی نگران بنا دیئے گئے تھے۔ عرف ِ عام میں اس کالج کو NCAکہا جاتا ہے۔ NCAکے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اعجاز انور نے کہا کہ اُنیسویں صدی کے وسط میں انگریز جب برصغیر کے اس حصہ میں آئے تو اُنہیں احساس ہواکہ شمال مغربی بھارت کی ثقافت اور یہاں کے آرٹس اور کرافٹس منفرد نوعیت کے ہیں لہٰذا1864ء میں اُنہوں نے جس مقام پر لاہور میں ٹولنٹن مارکیٹ واقع ہے وہاں ایک صنعتی نمائش کا اہتمام کیا اور یہی نمائش بعد میں دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔

نمائش کے ایک حصے میں آرٹس اور کرافٹس تھے اور ساتھ ہنر مند کاریگر بھی تھے لہٰذااس حصے کی لاہورا سکول آف آرٹس کے طور پر تنظیم کردی گئی جبکہ باقی رہ جانے والے نوادرات کو لاہور میوزیم کا نام دے دیا گیا۔ ڈاکٹر اعجاز انور کا کہنا تھا کہ اس طرح ابتدا ہوگئی لیکن بعد میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر لاہور میں تین نئی عمارتیں بنائی گئیں جن میں ایک عمارت لاہور میوزیم کی، دوسری لاہور اسکول آف آرٹس کی اور تیسری لاہور کارپوریشن کی عمارت قرار دی گئی۔ اِن تینوں کو جوبلی بلڈنگز بھی کہا جاتا ہے ۔

لارڈ میو
لارڈ میو

ڈاکٹر اعجاز انور نے بتایا کہ لاہورا سکول آف آرٹس ابھی نیا نیا ہی قائم ہوا تھا کہ چند برس بعد ہی اس کا نام تبدیل کردیا گیا۔ جزائر انڈیمان میں 1872ء میں قتل ہونے والے وائسرائے ہند لارڈ میو کی یاد میں اس کا نام میو اسکول آف آرٹس کردیا گیا تھا۔ لارڈ میو کو افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک پٹھان شیرِعلی نے1872ء میں جزائر انڈیمان کے اُن کے سرکاری دورے کے دوران قتل کردیا تھا۔

ڈاکٹر اعجاز انور کا کہنا تھا کہ بعد میں اس ادارے کا پرانا نام لوگ بالکل بھول گئے اور پورے ہندوستان میں میو اسکول آف آرٹس ایک معروف درسگاہ کے طور پر سامنے آیا۔ انہوں نے بتایا کہ تقسیم ِ ہند کے وقت تک اس اسکول کے ساتھ بڑے نامی گرامی لوگ وابستہ رہے جن میں معروف مصور ملک غلام نبی ، مصور اور مجسمہ ساز پی سی سانیال کے علاوہ عبدالرحمن چغتائی شامل ہیں۔ عبدالرحمن چغتائی میو اسکول آف آرٹس میں اس دور میں پرنٹ میکنگ پڑھاتے تھے۔

تقسیم ِ ہند کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر اعجاز انور نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد میوا سکول آف آرٹس میں محض دس گیارہ طالب علم رہ گئے تھے کیونکہ یہاں اُن کے بقول زیادہ تر غیر مسلم طالب علم تھے۔برطانوی دور میں میو اسکول آف آرٹس اور اس کے ساتھ واقع لاہور کے عجائب گھر کے درمیان کوئی دیوار نہیں تھی یعنی آرٹس اسکول میں جو اہم کام ہوتاتھا اس کو فورا ًہی لے جا کر میوزیم میں رکھ دیا جاتا تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد میوزیم الگ اور آرٹس ا سکول الگ ہوگئے تھے۔

ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں آرٹس اینڈ کرافٹس کی کافی زیادہ تربیت خاندانوں تک ہی محدود تھی۔ درسگاہ میں اپنا فن سکھانے سے ماہر کاریگر اکثر گریز کرتے تھے اور چونکہ اس ادارے میں پاکستان بننے سے پہلے کی ماہر کاریگروں کی یہ روایت موجود تھی کہ وہ یہاں آکر طلبہ وطالبات کوفنون سکھاتے تھے لہٰذا وہ روایت آہستہ آہستہ اپنا رنگ دکھاتی رہی اور یوں 1958ء تک طالب علموں کی تعداد یہاں کافی ہوگئی۔پروفیسر شاکر علی سمیت کئی لوگ باہر سے تعلیم حاصل کر کے یہاں آچکے تھے اور اس ادارے سے وابستہ ہوگئے تھے۔

ڈاکٹر اعجاز انور کا کہنا تھا کہ حکومت کی دلچسپی اس دور تک بھی بالکل برائے نام تھی جس کا اندازہ اس بات سے کیا جاتا ہے کہ سرکار نے اس آرٹس سکول کو وزارتِ زراعت کے تحت رکھا ہوا تھا۔ تاہم اُن کے بقول جب صورتحال کچھ بہتر ہوئی تو اس ادار ے کو وزارتِ صنعت کے سپر د کردیا گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ یہی وہ دور تھا جب پروفیسر شاکر علی جیسے اساتذہ نے پہلے سے موجود اس تجویز پر کام کرنا شروع کیا کہ میو اسکول آف آرٹس کو قومی سطح کے نیشنل کالج آف آرٹس میں تبدیل کیا جائے۔

لاہور اسکول آف آرٹس سے نیشنل کالج آف آرٹس تک
لاہور اسکول آف آرٹس سے نیشنل کالج آف آرٹس تک

ڈاکٹر اعجاز انور نے بتایا کہ یہ کام اس غیر ملکی امداد سے ہواجو پاکستان کو کولمبو پلان کے تحت ملی اور اسی پنج سالہ منصوبے کے تحت بیرونِ ملک سے کچھ ٹیچرز بھی میو سکول آف آرٹس آئے۔اِن میں جرمنی کے پروفیسر Sponenburgاور جاپان کے پروفیسرTakikaبھی شامل تھے۔ 1958ء میں جب میوا سکو ل آف آرٹس کو نیشنل کالج آف آرٹس کا درجہ دیا گیا توپروفیسرSponenburgاس کے پہلے پرنسپل ہوئے۔ان کا کہنا تھا پروفیسر شاکر علی پروفیسرSponenburgکی کنٹرکٹ کی میعاد ختم ہونے کے بعد 1960ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل بنے تھے۔

NCAکا پہلا سیشن بہت معروف ہے۔ اس سیشن میں جو طالب علم آئے بعد میں ان میں سے بیشتر مختلف شعبوں میں بہت معروف ہوئے۔ڈاکٹر اعجاز انور نے کہا اس بیچ میں ظہورالاخلاق بھی شامل تھے جو بعد میں اسی کالج میں پروفیسر ہوئے۔ پروفیسر صلاح الدین بھی اسی بیچ میں تھے جنہوں نے سرامکس میں قابل قدر کام کیا ہے، عبدالرحمن خان بھی تھے جن کا آرکٹیکچر میں بڑا نام ہے اور ڈیزائن کے شعبے کی اہم شخصیت احمد خان بھی اسی بیچ میں تھے۔ڈاکٹر اعجاز انور کے بقول بعد میں بھی نیشنل کالج آف آرٹس میں تعلیم پانے والے طلبہ وطالبات بہت معروف ہوئے اور آج دُنیا کے کونے کونے میں اس ادارے سے تعلیم حاصل کرنے والے گریجویٹ پھیلے ہوئے ہیں۔اس ادارے کے سینکڑوں طلبہ وطالبات کے فن کی ہر سال کئی ملکوں میں نمائشیں ہوتی ہیں۔

پہلے اس کالج میں آرکیٹکچر، ڈیزائن اور فائن آرٹس کے شعبے ہوتے تھے۔ NCAکی برصغیر میں اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر اعجاز انور کا کہنا تھا کہ ممبئی میں جے جے سکول آف آرٹس کے بعد پورے برصغیر میں نیشنل کالج آف آرٹس ہی اس فن کا سب سے موٴقر تعلیمی ادارہ ہے۔

XS
SM
MD
LG