رسائی کے لنکس

نجی ٹی وی چینلز پر’ بریکنگ نیوز‘ کا چسکا


نجی ٹی وی چینلز پر’ بریکنگ نیوز‘ کا چسکا
نجی ٹی وی چینلز پر’ بریکنگ نیوز‘ کا چسکا

دن شروع ہوتانہیں کہ ہر چینل ’بریکنگ ‘ کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔جیسے ہی اسے کوئی ’عام خبر‘ ملتی ہے اسے ’بریک ‘کرنے کی جلدی ہوجاتی ہے ۔ ہر چینل کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر خبر سب سے پہلے خود بریک کرنے کا کریڈیٹ اپنے نام کرلے۔ اسے یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر ’برابر والے‘ چینل کو اس خبر کی بھنک بھی مل گئی تو وہ بازی لے جائے گا۔۔اور یوں صورتحال اس قدر دلچسپ ہوجاتی ہے کہ اللہ اللہ۔۔

پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز کی اپنی ہی دنیا ہے۔اس دنیا کو ’وجود ‘ میں آئے گوکہ ایک عشرہ مکمل ہوا مگر ابھی بھی یہ تجرباتی دور سے گزررہی ہے۔ یہاں روز نئے نئے تجربات ہوتے نظر آتے ہیں۔ ان تجربات کی وجہ سے ہی چینلز کو بریکنگ نیوز کا چسکا لگ گیا ہے۔۔۔اس چسکے سے عام آدمی کسی حد تک خوش ،تو کسی حد تک ناراض بھی ہے۔اسی لئے اس ’دنیا‘ سے اسے کچھ شکوے بھی ہیں۔

چینلز سے معذرت کے ساتھ۔۔ ناقدین کا سب سے بڑااعتراض یہ ہے کہ یہاں بریکنگ نیوزکو اس قدر اہمیت دی جاتی ہے کہ جو خبر’ بریکنگ‘ نہیں بھی ہوتی ،اسے بھی بڑھا چڑھا کر’ ’بریکنگ نیوز “ بنا دیا جاتا ہے۔ ۔کیسے؟ بس یہی تو وہ دلچسپ امر ہے جس سے کئی شگوفے جڑے ہیں۔

دن شروع ہوتانہیں کہ ہر چینل ’بریکنگ ‘ کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔جیسے ہی اسے کوئی ’عام خبر‘ ملتی ہے اسے ’بریک ‘کرنے کی جلدی ہوجاتی ہے ۔ ہر چینل کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر خبر سب سے پہلے خود بریک کرنے کا کریڈیٹ اپنے نام کرلے۔ اسے یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر ’برابر والے‘ چینل کو اس خبر کی بھنک بھی مل گئی تو وہ بازی لے جائے گا۔۔اور یوں صورتحال اس قدر دلچسپ ہوجاتی ہے کہ اللہ اللہ۔۔

کراچی کے رہائشی اور ’بریکنگ نیوز‘کے انداز سے ناراض ایک ناقد افسر علی بتاتے ہیں اگر کسی چینل کو یہ خبر ملتی ہے کہ ملک کے دور افتار علاقے میں واقع ایک ائیرپورٹ کے رڈار سسٹم نے کام کرنا بند کردیا ہے تو وہ اس خبر کو بھی بریکنگ بناکر چھوڑتا ہے۔ اب اس فیلڈ میں نیوز کاسٹر ز ایسے آگئے ہیں جو ایک سانس میں اور اس قدر ہولناک انداز میں رپورٹرسے واقعے کی تفصیلات لیتے ہیں کہ ان کا لہجہ اور انداز دیکھ کر ہی دل دہلنے لگتا ہے ۔ پھر اس پر مقصد و بے مقصد سوالات کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے تو رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

لاہور کی ایک بڑی میڈیا کنسلٹنٹ فرم کے ایک سابق عہدیدار سید عامر کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ”بریکنگ نیوز“ کو ’کامیابی کی ضمانت ‘تصور کرلیا گیا ہے ۔ چینلز کا تجزیہ یہ ہے کہ بریکنگ نیوز کو دیکھنے والوں کی تعداد یک دم بڑھ جاتی ہے جس سے چینلز کی ریٹنگ ہائی ہوجاتی ہے اور اسے بزنس بھی زیادہ ملتا ہے اور شہرت بھی۔

”بات اگر’ حقیقی بریکنگ نیوز‘ تک ہی محدود رہتی تو بھی شاید بہتر ہوتا مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ بریکنگ نیوز کا اب کوئی معیار نہیں رہا۔“ یہ کہنا ہے شہرقائد ہی کے ایک ریٹارٹر ہیڈ ماسٹر سراج الحق کا۔ وہ اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں” عیدالاضحی کے دنوں کی بات ہے۔ ایک چینل نے یہ خبر بھی بڑے کروفر سے بریک کی تھی کہ کراچی کے فلاں ڈی ایس پی کا بکرا چوری ہوگیا ہے۔۔۔یہی نہیں بلکہ اس سے قبل ایک اور بڑے چینل نے یہ خبر بریک کی تھی ۔۔۔فلاں سیاست دان کے ریس میں دوڑنے والے مہنگے ترین گھوڑے فرار ہوگئے ہیں۔“

نیوز چینلز پر دن رات نظر رکھنے والے ایک نوجوان سارم بشار کا کہنا ہے ” لطف کی بات یہ ہے کہ کسی ایک چینل پر کسی اہم خبر کا’ ٹِکر‘ (خبرکی سرخی ) چلا نہیں کہ باقی چینلز جن کے پاس شاید وہ خبر ہوتی بھی نہیں وہ سب کے سب بیک وقت ایک دوسرے کے ٹِکرز ’کاپی‘ کررہے ہوتے ہیں۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے اور ہر کوئی اس کا جب چاہے مشاہدہ کرسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے در پہ ہے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوا کہ چینلز کو اپنی کی خبر کی تردید کرنا پڑی ہے۔ یہ غلطی عموماً جلد بازی میں ہوتی ہے۔“

ایک اور تجزیہ کار محمد ادریس کا کہنا ہے ”ایسا لگتا ہے کہ چینلز پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ بڑے میڈیا گروپس کے چینل اپنی ساکھ کی بدولت شاید کسی حکومتی ادارے کا دباوٴ برداشت نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ جس کی سمجھ میں جو آرہا ہے، جس انداز میں آرہا ہے، وہ نشر کررہا ہے۔ چھوٹے چینلز بڑے چینلز کی نقل کررہے ہیں اور بڑے چینلز غیر ملکی اور خاص کر پڑوسی ممالک کے چینلز کو کاپی کررہے ہیں“

XS
SM
MD
LG