رسائی کے لنکس

پاکستانی اخبارات پر افغان پابندی مسئلے کا حل نہیں


پاکستانی اخبارات
پاکستانی اخبارات

افغانستان نے اس بندش کا اعلان کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ پاکستانی اخبارات طالبان کی ترجمانی کرنے والوں کے لیے پراپیگینڈہ کرنے کا وسیلہ ہیں۔

پاکستان میں عہدے داروں نے پاکستانی اخبارات کے افغانستان میں داخلے پر پابندی کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے دوطرفہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

کابل میں افغان وزارت داخلہ نے رواں ہفتے اس بندش کا اعلان کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ پاکستانی اخبارات ’’طالبان کی ترجمانی کرنے والوں کے لیے پراپیگینڈہ کرنے کا وسیلہ ہیں‘‘۔

وزارت داخلہ نے پولیس کو حکم دے رکھا ہے کہ مشرقی جلال آباد شہر کے ساتھ متصل سرحدی چوکی، طورخم، کے راستے پاکستانی اخبارات کو ملک میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔

لیکن شمال مغربی خیبر پختون خواہ صوبے کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں افغان حکومت کےفیصلے کو صحافت پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے با آسانی حل کیا جاسکتا ہے کیونکہ پابندی لگانا اس کا حل نہیں۔

’’ہم صحافت پہ کسی طور بھی قدغن لگانا جرم سمجھتے ہیں۔ اگر اُن کو کوئی اعتراض ہے تو وہ ہمارے اخبارات کے مدیران سے بھی رابطہ رکھ سکتے ہیں، ہمارے حکومتی سطح پرانفارمیشن ڈپارٹمنٹ سے بھی رابطہ رکھ سکتے ہیں۔‘‘

صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اگر واقعی پاکستان کے اخبارات میں ایسی خبریں چھپ رہی ہیں جس سے افغانستان میں صورت حال خراب ہوتی ہے تو باہمی تعاون اور بات چیت سے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

’’میرے علم یا مشاہدے میں یہ بات نہیں آئی ہے کہ ارادةً ہمارے اخبارات کے ذریعے دہشت گردوں کی حمایت کی جا رہی ہے۔ اگر افغانستان والوں کے علم میں ہےتو یہ معاملہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کیا جا سکتا ہے۔‘‘

پاکستان میں افغان ٹی وی چینلز کیبل نیٹ ورک پر دیکھانے پر پابندی ہے اور افغان عہدے دار گزشتہ تین سالوں سے ان کے ملک کے نشریاتی اداروں کے لیے لینڈنگ رائٹس کا تقاضا کرتے آرہے ہیں۔

بعض ناقدین کے خیال میں افغان حکومت کی طرف سے پاکستانی اخبارات کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے کا اقدام افغان نشریاتی اداروں پر پابندی کا ردعمل ہو سکتا ہے کیونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں اخبارات کی ترسیل کو تو روکا جاسکتا ہے انٹرنیت کے ذریعے ان تک رسائی کو روکنا ممکن نہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات افتخار حسین
صوبائی وزیر اطلاعات افتخار حسین

صوبائی وزیر اطلاعات افتخار حسین نے بھی اعتراف کیا کہ پاکستانی حکومت کی پالیسی کی وجہ سے افغان نشریاتی اداروں کو درپیش مشکلات پرافغانستان میں ناراضگی کا اظہار کیا جارہا ہے لہذا دونوں طرف سے پابندی ہٹا کر آزادی صحافت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

’’اُن کے نجی ٹیلی ویژن چینلز کو یہاں پر لینڈنگ رائٹس نہیں دیے جاتے۔ یہ تین چار سال سے مسلسل یہ مسئلہ چلا آرہا ہے اور ان کو اس سے کافی تکلیف بھی ہے۔‘‘

افغانستان سے طورخم کے راستے بھیجے جانے والے اخبارات میں انگریزی روزناموں ڈان، ایکسپریس، ٹریبیون، اور دی نیوز کے علاوہ پشاور سے پشتو زبان میں شائع ہونے والا روزنامہ وحد، جبکہ اُردو اخبارات مشرق اور آج بھی شامل ہیں۔
XS
SM
MD
LG