رسائی کے لنکس

لطیف محسود کی حوالگی سے متعلق تاحال سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا


لطیف محسود (فائل فوٹو)
لطیف محسود (فائل فوٹو)

پاکستان لطیف محسود کی حوالگی کا مطالبہ کرتا رہا ہے اور مبصرین ایک سینیئر طالبان کی حوالگی کو ایک غیر معمولی اقدام قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان کی طرف سے تاحال اُن خبروں کی تصدیق نہیں کی گئی کہ افغانستان میں قید پاکستانی طالبان کے اہم کمانڈر لطیف محسود کو پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ اتوار کو خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ نے افغانستان میں امریکی عہدیداروں کے حوالے سے کہا تھا کہ تین قیدیوں کو پاکستان کے حوالے کیا گیا ہے۔

لیکن افغانستان کے بگرام جیل سے رہا کیے جانے والے ان قیدیوں کے نام نہیں بتائے گئے تھے۔

ذرائع ابلاغ نے سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے یہ خبر بھی دی تھی کہ رہا کیے جانے والوں میں لطیف محسود بھی شامل ہے جو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق امیر حکیم اللہ محسود کے بعد سب سے اہم کمانڈر رہ چکا ہے۔

حکیم اللہ محسود نومبر 2013ء میں شمالی وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔

پاکستان لطیف محسود کی حوالگی کا مطالبہ کرتا رہا ہے اور مبصرین ایک سینیئر طالبان کی حوالگی کو ایک غیر معمولی اقدام قرار دے رہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق لطیف محسود کو افغان فوج نے اکتوبر 2013ء میں پاکستانی سرحد کے قریب سے حراست میں لیا تھا جس کے بعد انھیں بگرام کے امریکی اڈے پر منتقل کر دیا گیا تھا۔

افغان اُمور کے ماہر سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغان فورسز نے لطیف محسود کو گرفتار کیا تھا جس کے بعد اُسے امریکی فورسز نے قبضے میں لے لیا۔

رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق لطیف محسود پاکستان کو انتہائی مطلوب تھا اور اُن کے بقول اس سے اب کڑی تفتیش کی جائے گی۔

’’تفتیش کریں گے ،اس سے معلومات اگلوائیں گے، اس کے ذریعے وہ چاہیں گے کہ اور لوگوں کو پکڑیں اور اس پر کوئی سودے بازی بھی نہیں ہو گی اور میرے خیال میں یہ تینوں مطلوب اشخاص ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ گرفتار کیے جانے والے انتہائی مطلوب شدت پسندوں کے بارے میں سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا جاتا کہ اُنھیں کہاں رکھا گیا ہے۔

پاکستان میں سرکاری جیلوں کی سکیورٹی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے مشیر برائے جیل خانہ جات قاسم خان خٹک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگرچہ صوبے کی جیلوں کی سکیورٹی بڑھانے کے لیے قابل ذکر انتظامات کیے گئے ہیں تاہم اُنھوں نے کہا کہ صوبائی حکومت خطرناک دہشت گردوں کو محفوظ طریقے سے جیلوں میں رکھنے کے سکت نہیں رکھتی۔

’’ ہم بار بار گزارش کر رہے ہیں کہ ہم اتنے قابل نہیں ہیں کہ اتنے خطرناک قیدیوں کی حفاظت کر سکیں اور اس لیے ہمیں سکیورٹی کے خدشات ہیں اور اس وجہ سے ہم سارے خطرناک قیدیوں کو (وفاق کے زیر کنٹرول) منتقل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں شدت پسندوں نے حملہ کر کے خطرناک دہشت گردوں سمیت تین سو سے زائد قیدیوں کو فرار کروا دیا تھا۔

اس سے قبل اپریل 2012ء میں بنوں میں بھی شدت پسندوں نے ایک جیل پر حملہ کر کے وہاں سے سینکڑوں قیدیوں کو رہا کروا لیا تھا۔ ان قیدیوں میں عدنان رشید بھی شامل تھا جسے سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کے الزام میں سزائے موت سنائی جا چکی تھی۔ عدنان رشید کو بعد سکیورٹی فورسز نے کارروائی کر کے گرفتار کر لیا تھا۔

XS
SM
MD
LG