رسائی کے لنکس

پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کافی کچھ نہیں کررہا، امریکی کمانڈر


فائل
فائل

حکانیوں کے خلاف کارروئی پر پاکستان کی مبینہ طور پربے دلی اور غیررضامندی پر امریکہ کی مایوسی سے اسلام آباد اور واشنگٹن کےتعلقات کئی برسوں سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔

افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فورسز کے کمانڈر نے کہا ہے کہ ہمسایہ ملک پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے عسکریت پسندوں کو سرحدپار مہلک حملوں سے روکنے کے لیے ابھی تک کافی کچھ نہیں کیا ہے۔

افغان حکام اپنے ملک میں، بالخصوص درالحکومت کابل میں بڑے پیمانے کے حملوں کا الزام حکانی نیٹ ورک پر لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ یہ کارروائیاں پاکستان کی سرزمین سے کرتے ہیں اور انہیں وہاں کی انٹیلی جینس ایجنسی کے اہل کاروں کی خفیہ مدد حاصل ہوتی ہے۔

جمعے کے روز پنٹاگان میں ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی کمانڈر جان نکول سن نے بتایا کہ پاکستان حقانیوں پر مؤثر دباؤ نہیں ڈال رہا۔ ان کا کہنا تھاکہ حکانی نیٹ ورک کے عسکریت پسند افغانستان کے اندر اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کی عملی طور پر اہلیت رکھتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر امریکیوں اور اتحادی اور افغان فورسز کے ارکان کے لیے خاص طور پر کابل میں ایک بڑا خطرہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ اور افغانستان کے مشترکہ حفاظتی اقدامات کےنتیجے میں کابل پر 2015 کے مقابلے میں اس سال ہونے والے دہشت گرد حملوں کی تعداد 23 سے گھٹ کر 16ہوگئی ہے۔

پاکستانی حکام اپنی سرزمین پر عسکریت پسندوں کے کسی بھی طرح کے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری ان کا فوجی آپریشن بلا امتیاز ہے اور وہ اپنی سرحد کے اندر افغان شورش پسندوں سمیت تمام گروپوں کے عسکری ڈھانچوں اپنا کو ہدف بنا رہے ہیں۔

حکانیوں کے خلاف کارروئی پر پاکستان کی مبینہ طور پربے دلی اور غیررضامندی پر امریکہ کی مایوسی سے اسلام آباد اور واشنگٹن کےتعلقات کئی برسوں سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔

پچھلے مہینے امریکہ نے پاکستان کے لیے 30 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد اس لیے روک دی تھی کیونکہ امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے کانگریس سے کہا تھا کہ وہ یہ تصدیق نہیں کرسکتے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر حکانیوں اور دوسرے دہشت گردوں کے خلاف مناسب اقدامات کررہا ہے۔

جنرل نکولسن نے اپنی پریس بریفنگ میں یہ بھی تصدیق کی کہ حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر سراج الدین حقانی کا بھائی افغانستان کی تحویل میں ہے اور ایک مقامی عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی ہے۔

افغان صدر اشرف غنی پر ملک کے اندر سے یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ سزا پر جلد از جلد عمل درآمد کرائیں۔

امریکی کمانڈر کا کہنا تھا کہ سزا کے خلاف اپیل کی گئی ہے اور یہ عمل اگلے سال تک جاری رہ سکتا ہے۔ جب کہ طالبان نے سزا پر عمل درآمد کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکی دی ہے۔

XS
SM
MD
LG