رسائی کے لنکس

پاکستانی صدر اور وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کا انتباہ


وزیراعظم یوسف رضا گیلانی
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی

عدالت عظمٰی کے فیصلے پر فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ این آراو سے صرف پیپلز پارٹی نہیں بلکہ ایم کیو ایم سمیت ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی مستفید ہوئیں۔ اُنھوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کو پہلی مرتبہ جب سابق صدر پرویز مشرف نے این آر او کا مسودہ بھیجا تھا تو مقتول رہنما نے اسے مسترد کردیا لیکن اس وقت امریکی وزیر خارجہ کونڈالیزا رائس کی مداخلت پر طرفین رضا مند ہو گئے۔

پاکستان کی عدالت عظمٰی نے منگل کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو متنبہ کیا ہے کہ این آر او کے تحت صدر مملکت سمیت دیگر ہزاروں افراد کے خلاف ختم کیے گئے بدعنوانی کے مقدمات کو بحال نہ کیا گیا توعدالت اُنھیں اُن کے عہدے سے برطرف بھی کر سکتی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے قومی مصالحتی آرڈینینس (این آر او) کو کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے پر قابل ذکرعملدرآمد نہ ہونے پر مایوسی کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جان بوجھ کر عدالت کی حکم عدولی کرنے پر وزیراعظم نے ملک کے دستور کی بجائے اپنی سیاسی جماعت سے وفاداری کی ہے۔

عدالت عظمٰی کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کی بالادستی قائم کرنے اور اس سے وفاداری کے اپنے حلف سے وزیراعظم کا بظاہر انحراف ان کے ’’ایماندار‘‘ اور ’’امین‘‘ ہونے کو مشکوک بناتا ہے اور ایسا شخص دستور کے تحت پارلیمان کا رکن نہیں رہ سکتا۔

’’کچھ ایسا ہی حلف متعلقہ سیاسی جماعت کے شریک چیئر مین نے صدر پاکستان کا منصب سنبھالتے وقت اٹھایا تھا۔۔۔اور ان کو بھی اپنے حلف سے بظاہر انحراف پر ایسے ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔

سپریم کورٹ نے این آراو کے خلاف دسمبر2009ء میں سنائے گئے اپنے فیصلے میں اس متنازع قانون کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کر کے اس سے مستفید ہونے والے ہزاروں افراد بشمول صدرزرداری کے خلاف اندرون ملک اور پاکستان سے باہر قائم کیے گئے بدعنوانی کے مقدمات بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

لیکن سپریم کورٹ نے منگل کو جاری کیے گئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی مخلوط حکومت نے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں اور نہ ہی عدالت کے حکم پر سوئیٹزر لینڈ میں آصف علی زرداری کے خلاف ختم کیے گئے مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھا ہے۔

این آر او پر عمل درآمد میں تاخیر کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس کی وضاحت کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی رکھی تھی جس کے بعد منگل کو یہ فیصلہ سنایا گیا۔

وزیر اعظم گیلانی کی مخلوط حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان کے آئین کے تحت صدر مملکت کو کسی بھی طرح کی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے سے پیپلز پارٹی کی غیر مقبول مخلوط پر سیاسی دباؤ میں اضافے کا امکان ہے۔

وزیر داخلہ رحمٰن ملک
وزیر داخلہ رحمٰن ملک

عدالت عظمٰی کے فیصلے پر فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ این آراو سے صرف پیپلز پارٹی نہیں بلکہ ایم کیو ایم سمیت ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی مستفید ہوئیں۔ اُنھوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کو پہلی مرتبہ جب سابق صدر پرویز مشرف نے این آر او کا مسودہ بھیجا تھا تو مقتول رہنما نے اسے مسترد کردیا لیکن اس وقت امریکی وزیر خارجہ کونڈالیز رائس کی مداخلت پر طرفین رضا مند ہو گئے۔

’’اس وقت کی (امریکی) وزیر خارجہ کونڈلیزا رائس نے فون کیا کہ آپ کو ہر صورت بات کرنی چاہیئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں الیکشن ہوں جس میں ساری فورسز اس میں حصہ لیں۔ دوبارہ بات چیت ہوئی کہ اس این آراو میں پیپلز پارٹی کا کوئی رول نہیں تھا۔‘‘

پیپلز پارٹی کا قائدین کا الزام ہے کہ سپریم کورٹ نے صدر زرداری کی حکومت کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنا رکھی ہے جس کا مقصد فوج کے ساتھ مل کر آئینی طریقے سے حکومت کو برطرف کرنا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت نے بھی بظاہر ایک جارحانہ رویہ اپنا لیا ہے جس کا صدر زرداری نے رواں ہفتے ایک ٹی وی انٹرویو میں کھل کر اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ این آراو ماضی بن چکا ہے اور ان کی حکومت سوئٹزرلینڈ میں مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط نہیں لکھے گی۔

آئینی اور قانونی ماہرین نے صدر زرادری کے اس بیان کو توہین عدالت قرار دیا ہے تاہم ان کے خیال میں اس بارے میں کوئی حتمی رائے صر ف سپریم کورٹ ہی قائم کر سکتی ہے۔

عدالت عظمٰی نے اٹارنی جنرل کو 16 جنوری کو دوبارہ پیش ہونے کا حکم سناتے ہوئے این آر او کے خلاف فیصلے پر عمل درآمد کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا ہے اور انھیں اس کے لیے لارجر بنچ بنانے کی تجویز بھی دی ہے۔

XS
SM
MD
LG