رسائی کے لنکس

’این آر او کے فیصلے پر عمل درآمد حکومت کے لیے چیلنج ہو گا‘


پاکستان کی سپریم کورٹ
پاکستان کی سپریم کورٹ


قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) کو کالعدم قرار دینے کے عدالتِ عظمیٰ کے تفصیلی فیصلے پر وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے فوری ردِعمل میں کہا ہے کہ حکومت عدلیہ کا احترام کرتے ہوئے فیصلے کا بغور جائزہ لے کر اُس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب ادارے مضبوط ہوں گے تو حکومت مضبوط ہو گی، اِس لیے، حکومت اُن اداروں کے استحکام کے لیے عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتی ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جوں ہی فیصلے پر قانونی ماہرین کی طرف سے اُن کو سفارشات موصول ہوں گی، حکومت اُن پر عمل درآمد کرے گی۔

وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے صرف ایک ادارہ کام نہیں کر رہا۔ ‘اِس پر عدالت کا کردار بھی ہے کہ لوگوں کو سستا اور دہلیز پر انصاف ملنا، اور اُس کے لیے جو عدالت کو ضرورت ہو گی حکومت اُس کو تمام وسائل فراہم کرے گی۔

دوسری طرف ناقدین کے بقول، این آر او کے خلاف عدلیہ کے فیصلے سے جہاں حکومت کی سیاسی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے وہاں اِس فیصلے پر عمل درآمد بھی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہو گا۔

ملک کے سابق وزیرِ قانون اور حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ق) کے سنیٹر ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ حکومت میں جو بہت ہی قریبی لوگ ہیں، جو سنیٹ وغیرہ میں منتخب ہو کر اِس وقت کچھ عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں اُن کے نام این آر او کی وجہ سے صاف گئے تھے، اُن کے بقول، اُن کو بڑی دقتیں ہوں گی۔

‘سب سے پہلے اگر مقدمے شروع ہو جائیں تو ضمانتیں اگر اُنھوں نے پہلے نہیں کرائیں تو ضمانتیں کرانی ہوں گی، پھر جو بہت سارے فوج داری مقدمات ہیں وہ خاص طور پر مشکل مسئلہ ہے، کیونکہ جن لوگوں کے خلاف فوج داری مقدمات جن کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے وہ رہا ہو کر نہ معلوم کہاں چلے گئے ہیں۔ غائب بھی ہو چکے ہوں گے۔ اُن کو تلاش کرنا، اُن کے وارنٹ جاری کرنا ایک بہت بڑا معاملہ ہو گا جو حکومت کو کرنا ہو گا۔ اِس طرح کے مسائل اور مشکلات تو ضرور پیدا ہوں گی۔’

اُنھوں نے کہا کہ جہاں تک صدرِ مملکت کا تعلق ہے، اُن کو اخلاقی دقت پیش آئے گی ‘کیونکہ، تفصیلی فیصلے میں بہت بڑی نشان دہیاں موجود ہیں جِس میں دو بڑے سربراہان کا ذکر آیا ہے۔’

ایس ایم ظفر نے نائجیریا اور فلپائن کے سابق سربراہان کے معاملے کی طرف توجہ مبذول کروائی جس سے، اُن کے بقول، تفصیلی فیصلے میں اشارے ضرور مل جاتے ہیں کہ حکومت کو اب اِس جانب بھی توجہ دینی ہو گی، چاہے وہ پیسے صدرِ مملکت کے ذمے بتائے جا رہے ہیں یا کسی اور کے، حکومت کو اُن کے واپسی کی تگ و دو کرنی ہو گی۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ کا کہنا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنا ہی حکومتِ وقت کے بہترین مفاد میں ہے۔ اُن کے بقول ’مجھے کوئی خطرہ نظر نہیں آ رہا کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ہو گا تو کوئی آسمان گر پڑے گا، بلکہ ‘آسمان گرنے سے بچ جائے گا۔’

حفیظ پیرزادہ کا کہنا تھا کہ این آر او کے خلاف عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کی صورت میں حکومت کی آئینی اور قانونی مشکلات میں یقیناً اضافہ ہو گا۔

XS
SM
MD
LG