رسائی کے لنکس

فوجی آپریشن: سیاسی جماعتوں کا ملا جلا رد عمل


پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی نشست (فائل فوٹو)
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی نشست (فائل فوٹو)

کئی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس فوجی کارروائی سے پہلے حکومت نے انہیں اعتماد میں نہیں کیا۔

پاکستان نے اتوار کو القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کے گڑھ شمالی وزیرستان میں ’’جامع کارروائی‘‘ کا آغاز کیا جس میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں کئی ڈھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے 140 سے زائد جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

فوج کے ترجمان کے مطابق افغان سرحد پر واقعہ قبائلی علاقے میں ’’ضرب عضب‘‘ نامی آپریشن کا آغاز نواز انتظامیہ کی ہدایت پر کیا گیا۔

تاہم کئی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس فوجی کارروائی سے پہلے حکومت نے انہیں اعتماد میں نہیں کیا۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد جناب الطاف حسین نے وزیر اعظم نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً ٹیلی ویژن پر آکر فوجی کارروائی شروع کرنے کی وجوہات بیان کریں۔

’’یہ قومی سلامتی اور بقاء کا مسئلہ ہے اس پر پوری قوم کو اعتماد میں لینا ایک منتخب وزیر اعظم کا اخلاقی فرض اور آئینی ذمہ داری بنتی ہے ۔۔۔۔ تاکہ پوری دنیا میں یہ تاثر نہ جائے کہ فوج نے آپریشن از خود شروع کر دیا ہے۔‘‘

ایم کیو ایم صوبہ سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی اتحادی ہے۔
پیر کو سندھ اسمبلی نے متفقہ طور پر شمالی وزیرستان میں ہونے والے فوجی آپریشن کے حق میں قراردار منظور کی۔

پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کا کہنا تھا ’’یہ (عسکریت پسند) فخر سے کہتے ہیں کہ ہاں ہم نے یہ دہشت گردی کی ہے۔ تو ان دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کا یہ بہترین موقع ہے اور اس میں پاکستان پیپلز پارٹی، سندھ حکومت اور عوام ہماری فوج کے ساتھ ہے۔‘‘

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی ترجمان شیرین مزاری نے سماجی رابطے کے ویب سائٹ ’’ٹوئیٹر‘‘ پر اپنے پیغام میں لکھا کہ
’’وزیراعظم کو ندامت ہونی چاہیئے کہ انہوں نے سیاسی جماعتوں کو شمالی وزیرستان آپریشن پر اعتماد میں نہیں لیا۔‘‘

تاہم تحریک انصاف ہی کے قانون ساز عارف علوی کہتے ہیں ’’ہم سب دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور میں پاکستان آرمی کی جنگ میں حمایت کرتا ہوں۔ میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں جو دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہوئے۔‘‘

مذہبی و سیاسی جماعت، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ فوجی آپریشن کے آغاز کے باوجود حکومت کو مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرنے چاہیں اور اس سلسلے میں قبائلی عمائدین کی خدمات سے فائدہ حاصل کریں۔

’’میرے خیال میں ابھی بھی بہت سے راستے ہمارے لیے کھلے ہیں کہ بغیر لاشوں کے، بغیر بارود و گولی کے استعمال کے ہم اپنے علاقے میں امن لا سکیں۔‘‘

حکومت کی اتحادی جماعت جمیعت علمائے اسلام (ف) نے فوجی کارروائی کو دہشت گردی کے خلاف ایک ’’ٹیکٹیکل آپریشن‘‘ قرار دیتے ہوئے مخالفت کی۔

جمیعت کے ترجمان جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان کے آپریشن سے ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں، جب تک عسکریت پسندی کے خلاف ایک ’’واضح حکمت عملی‘‘ اختیار نا کی گئی۔

’’اگر اس آپریشن کا مقصد صرف چند عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانا ہے اور باقیوں کو چھوڑ دینا ہے جو کہ ملک بھر میں دہشت گردی کے انفراسٹکچر چلا رہے ہیں تو یہ مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔‘‘

بعض حلقے جنوبی پنجاب کو فرقہ وارانہ کارروائیوں میں ملوث عسکریت پسندوں کا ایک ’گڑھ‘ سمجھتے ہیں جبکہ سلامتی سے متعلق اُمور کے ماہرین کے مطابق ملک کے دیگر حصوں میں بھی شدت پسندوں کے نیٹ ورک قائم ہیں۔
XS
SM
MD
LG