رسائی کے لنکس

’وزیرستان آپریشن کے حق میں فوج نے2010ء میں فیصلہ کیا تھا‘


فائل
فائل

فوج کے سابق ترجمان، جنرل اطہر عباس کے بقول، ’اس تاخیر کی وجہ سے، شدت پسندوں کے قدم مضبوط ہو چکے ہیں، ان کی تعداد بڑھ گئی ہے، ان کے وسائل میں اضافہ ہو چکا ہے، ان کے آپس میں رابطے بڑھ چکے ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہاں پر معاملات زیادہ پیچیدہ ہوگئے ہیں‘

’بی بی سی اردو‘ نےپاکستان فوج کے سابق ترجمان کے حوالے سے پیر کے روز اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان فوج نے تین برس قبل شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ’تاہم، اس وقت کے فوجی سربراہ میجر جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ہچکچاہٹ کے باعث، اس کارروائی پر عمل درآمد نہ کیا جاسکا‘۔

بی بی سی کو دیے گئےایک خصوصی انٹرویو میں جنرل اطہر عباس نے کہا کہ، ’اِس کارروائی کے حق میں، فوجی قیادت نے 2010ء میں فیصلہ دے دیا تھا، جس کےبعد، ایک سال فوجی کارروائی کی تیاری کی گئی۔ لیکن، عین موقعے پر جنرل کیانی کی جانب سے فیصلہ کرنے میں تذبذب کے باعث یہ آپریشن نہ ہو سکا‘۔

یہ معلوم کرنے پر کہ حتمی فیصلے میں تاخیر کا سبب کیا تھا، آئی ایس پی آر کے سابق ترجمان نے کہا کہ، ’اُن میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کے بارے میں ایک طرح کی ہچکچاہٹ پائی جاتی تھی‘ اور یہ کہ، ’وہ یہ فیصلہ کرنے میں بہت تامل کر رہے تھے‘۔

بقول سابق ترجمان کے مطابق، ’اُن (جنرل کیانی) کا خیال تھا کہ یہ فیصلہ کرنے سے ان کی ذات کے بارے میں باتیں کی جائیں گی۔ کہا جائے گا کہ یہ جنرل کیانی کا ذاتی فیصلہ تھا۔ اس لیے وہ اس فیصلے کو ٹالتے رہے۔ جس کی وجہ سے ہم نے بہت وقت ضائع کیا اور نقصان اٹھایا‘۔

جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ، ’اس تاخیر کی وجہ سے، شدت پسندوں کے قدم مضبوط ہو چکے ہیں، ان کی تعداد بڑھ گئی ہے، ان کے وسائل میں اضافہ ہو چکا ہے، ان کے آپس میں رابطے بڑھ چکے ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہاں پر معاملات زیادہ پیچیدہ ہوگئے ہیں‘۔

سابق فوجی ترجمان کے مطابق، فوج کی اعلیٰ قیادت نے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا فیصلہ وہاں پر تعینات فوجی کمانڈروں کی رائے اور وہاں سے ملنے والی انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر کیا تھا۔

جنرل اطہر عباس نے کہا کہ اُن کی ذاتی رائے میں’یہ کارروائی 2011ء میں ہوجانی چاہیئے تھی‘۔

ادھر، پاکستان فوج کے سابق سربراہ، جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا؛ ناہی اس سلسلے میں سابق وفاقی انتظامیہ یا موجودہ فوجی یا سول قیادت کی طرف کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔

XS
SM
MD
LG