رسائی کے لنکس

پاناما لیکس کی تحقیقات ’ایف آئی اے‘ سے کرانے کو تیار ہوں: چوہدری نثار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کہہ چکے ہیں اُن کے بیرون ملک اثاثے قانون کے عین مطابق ہیں اور اُنھوں نے کوئی خلاف قانون کام نہیں کیا۔

پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ وہ حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے مطالبے پر پاناما لیکس کے معاملے کی تفتیش وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ سے کرانے کو تیار ہیں۔

چوہدری نثار نے ہفتہ کو راولپنڈی میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ پاناما لیکس کے معاملے پر ہیجان کی صورت حال پیدا نہیں کی جانی چاہیئے۔

’’عمران خان آپ پوری ایف آئی اے میں سے جو نام لیں گے، جس افسر کا آپ نام لیں گے میں اُسی کو انکوائری افسر مقرر کر دوں گا میں یہ پوری قوم کے سامنے کہہ رہا ہوں۔‘‘

پاناما کی ایک لافرم کی منظر عام پر آنے والی دستاویزات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے قائدین اور مالدار افراد نے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے ’آف شور‘ کمپنیوں کا استعمال کیا۔

ایسے افراد کی فہرست میں وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کے علاوہ اُن کے دو بیٹوں حسین اور حسن نواز کے نام بھی سامنے آئے کہ اُنھوں نے بھی ’آف شور‘ کمپنیوں کے ذریعے لندن میں جائیداد بنائی۔

وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کہہ چکے ہیں اُن کے بیرون ملک اثاثے قانون کے عین مطابق ہیں اور اُنھوں نے کوئی خلاف قانون کام نہیں کیا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف پہلے ہی اس معاملے کی تحقیقات سپریم کورٹ کے سابق ایک جج کی نگرانی میں قائم کمیشن کے ذریعے کرانے کا اعلان کر چکے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ منگل کو وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب میں عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن تاحال یہ کمیشن نہیں دیا گیا۔

چوہدری نثار کے بقول حکومت نے سپریم کورٹ کے دو سابق چیف جسٹس صاحبان سے مجوزہ کمیشن کی سربراہی کے لیے رابطہ کیا تاہم اُن کے بقول دونوں سابقہ ججوں نے اس سے اجتناب کیا، تاہم وزیر داخلہ نے اُن سابق چیف جسٹس صاحبان کے نام نہیں بتائے۔

’’ہم چاہتے کہ سپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس اس کمیشن کی قیادت کریں مگر جب یہ الزام تراشی اور شور شرابہ ہوا تو وہاں سے تھوڑا سے اجتناب ہوا کیوں کہ کوئی بھی شریف آدمی اور خاص طور پر سابقہ چیف جسٹس خود کو اس سیاسی الزام تراشی کا نشانہ نہیں بنانا چاہتے۔ کیوں کہ سب کو عزت کا پاس ہے۔‘‘

یہ معاملہ رواں ہفتے پارلیمان میں بھی موضوع بحث رہا جہاں بعض قانون سازوں کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

اسی معاملے پر حکومت اور حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے اراکین کے درمیان تند و تیز بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

عمران خان نے اسی سلسلے میں اپنا موقف پیش کرنے کے لیے سرکاری میڈیا کے ذریعے قوم سے خطاب کی خواہش کا اظہار کیا اور تحریک انصاف نے اس بارے میں انتظامات کے لیے وفاقی سیکرٹری اطلاعات کو ایک خط بھی لکھا۔

تاہم وزیر داخلہ نے کہا کہ اس طرح کے خطاب کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

’’اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اُن کا استحقاق نہیں ہے۔۔۔۔ پوری دنیا میں جو قومی چینل ہوتا ہے اُس کے ذریعے قوم سے خطاب صدر یا وزیراعظم کرتا ہے۔ آپ نے پوری دنیا میں نہیں سنا ہو گا کہ حزب اختلاف کے رہنما نے قوم سے خطاب کیا ہو۔‘‘

واضح رہے کہ حزب مخالف کی جماعتوں خاص طور پر عمران خان کی تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی طرف سے وزیراعظم کی طرف سے تجویز کردہ کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے، پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی زیر صدارت ایک کمیشن بنا کر اُس کے ذریعے تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG