رسائی کے لنکس

’عدالتی کارروائی کے آغاز کا خیر مقدم کرتا ہوں‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیراعظم نے اپنے بیان میں یہ موقف پیش کیا کہ تحقیقات کے لیے متفقہ طور پر ’ٹی او آر‘ کی تیاری کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی بھی بنائی لیکن حزب مخالف کے رویے کے سبب اتفاق نا ہو سکا۔

وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاناما پیپرز کے حوالے سے ملک کی عدالت عظمٰی میں کارروائی کے آغاز کا وہ ’’کھلے دل سے خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ وزیراعظم کے اس بیان سے کچھ گھنٹے قبل ہی چیف جسٹس انور جمالی کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے پاناما پیپرز کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقاتسے متعلق درخواستوں پروزیراعظم سمیت تمام فریقوں کو نوٹس جاری کیے تھے۔

عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے علاوہ جماعت اسلامی اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ نے اس معاملے کے بارے میں سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر رکھی تھیں۔

عدالت کے حکم نامے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے اپنے قریبی سیاسی و قانونی مشیروں سے مشاورت کی، جس کے بعد سرکاری طور پر ایک بیان جاری کیا گیا۔

بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ پاناما پیپرز کے سامنے آنے کے بعد حزب مخالف کے کسی بھی مطالبے سے قبل ہی اُنھوں نے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج صاحبان پر مشتمل کمیشن کا اعلان کیا تھا، تاکہ اس معاملے کی شفاف تحقیق ہو سکے۔

’’اس کے جواب میں واحد مطالبہ یہ سامنے آیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں حاضر سروس جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے۔ میں نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ مطالبہ بھی تسلیم کر لیا۔ تاہم اس کے ساتھ ہیتحقیقات کے ضابطہ کار یعنی ’ٹی او آرز‘ کا تنازعہ شروع کر کے سپریم کورٹ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔‘‘

وزیراعظم نے اپنے بیان میں یہ موقف پیش کیا کہ تحقیقات کے لیے متفقہ طور پر ’ٹی او آر‘ کی تیاری کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی بھی بنائی لیکن حزب مخالف کے رویے کے سبب اتفاق نا ہو سکا۔

لیکن پارلیمانی کمیٹی میں موجود حزب مخالف کی جماعتوں کا الزام رہا ہے کہ ’ٹی او آرز‘ پر اتفاق حکومت کے سخت رویے کی وجہ سے نہیں ہو سکا۔

وزیراعظم نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’پاناما پیپرز کا معاملہ اب الیکشن کمیشن، لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے لایا جا چکا ہے میں آئین کی پاسداری، قانون کی حکمرانی اور مکمل شفافیت پر کامل یقین رکھتا ہوں۔ عوام کی عدالت تو پے در پے فیصلے صادر کر رہی ہے بہتر ہوگا کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار بھی کر لیا جائے۔‘‘

واضح رہے کہ حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف نے پاناما پیپزر کے معاملے کی تحقیقات نا ہونے پر دو نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعظم کو اس معاملے پر نوٹس جاری کرنے کے بعد تحریک انصاف اپنے احتجاج کی کال پر نظر ثانی کرے گی یا نہیں۔

XS
SM
MD
LG