رسائی کے لنکس

پانچ سال بعد بھی 170 سے زائد قانونی مسودے التوا کا شکار


حکمران جماعت کی رکن قومی اسمبلی یاسمین رحمان نے بتایا کہ پارلیمان میں پرائیویٹ ممبر بل یا اراکین کی طرف سے پیش کردہ بل کو ہمیشہ سے اہمیت نہیں دی گئی۔

ملک کی قومی اسمبلی پہلی بار اپنے پانچ سال مکمل کرنے جارہی ہے جس میں 18 ویں، 19 ویں اور 20 ویں ترامیم کے ذریعے جہاں صدر مملکت کے کئی صوابدیدی و انتظامی اختیارات پارلیمان کو منتقل کردیے گئے ہیں وہیں صوبوں کو بااختیار اور الیکشن کمیشن کو خود مختار بنایا گیا ہے اور انہی کو حکومت اور حزب اختلاف اپنی اور جمہوریت کی کامیابیاں قرار دیتی ہیں۔

لیکن دوسری جانب ان پانچ سالوں میں قومی اسمبلی کے اراکین کی طرف سے 176 بل پیش کیے گئے جس پر کوئی کارورائی نہیں ہوسکی۔ ان میں خواتین پر تیزاب سے حملوں کی روک تھام، بچوں کے حقوق اور غریبوں کی فوڈ سیکیورٹی، معذور لوگوں کے روزگار، ہندوؤں کی شادی اور ملک میں تخفیف اسلحہ جیسے اہم معاملات پر قانونی مسودے شامل ہیں۔

حکمران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی رکن یاسمین رحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پارلیمان میں پرائیویٹ ممبر بل یا اراکین کی طرف سے پیش کردہ بل کو ہمیشہ سے اہمیت نہیں دی گئی اور بالخصوص انسانی حقوق سے متعلق قانونی مسودوں پر اراکین کی غیر سنجیدگی ان پر ہونے والی ممکنہ کارروائی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

’’میں نے ایک مرتبہ نابینا افراد کے حوالے سے پارلیمان میں بات کی تو مجھے کہا گیا کہ آپ کیا چیزیں لے آتی ہیں۔ یہ اہم نہیں۔ سٹرکوں اور پلوں کی تعمیر اہم ہے۔ تو لوگوں میں ان معاملات سے متعلق حساسیت موجود نہیں۔‘‘

یاسمین رحمان تاہم اس بات پر مسرور ہیں کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ان کے بل کو موجودہ پارلیمان نے منظور کیا۔

جمہوریت اور پارلیمانی نظام کی ترقی کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈیٹ کی جوائنٹ ڈائریکٹر آسیہ ریاض کا کہنا ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی نے 10 کے قریب پرائیویٹ بل منظور کیے اور یہ کارکردگی ماضی کی اسملبیوں کی نسبت کافی تسلی بخش ہے۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ قانون سازی کے عمل کو بہتر اور تیز بنانے کے لیے مزید اصلاحات کی گنجائش موجود ہے۔

’’مختلف لوگ اور ادارے اپنے مفادات سے متعلق قانون سازی کے لیے روایتی طور پر حکومت کے ساتھ کام کرکے انہیں آمادہ کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ تو جیسے جیسے قائمہ کمیٹیاں مضبوط ہوں گی تو ان کے ساتھ لابنگ کی جائے گی۔‘‘

آسیہ ریاض کے مطابق پارلیمان میں قانون سازی سے متعلق تحقیقاتی افراد اور سہولتوں کی اشد ضرورت ہے۔

سیاسی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں پارلیمانی نظام کے تسلسل اور استحکام سے ہی اس کی افادیت اور کارکردگی میں بہتری ممکمن ہے اور نظام میں کسی قسم کی تبدیلی ملک کے لیے نقصان دہ ہوگی۔
XS
SM
MD
LG