رسائی کے لنکس

بلدیاتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف جزوی ہڑتال


مختلف شہروں میں دوکانیں اور کاروباری مراکز جزوی طور پر بند رہے اور بعض علاقوں میں احتجاجی جماعتوں کے کارکنوں نے مبینہ طور پر زبردستی دکانیں بند کروانے کی بھی کوشش کی۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں حزب مخالف کے سہ جماعتی اتحاد کی کال پر جزوی طور پر شٹرڈاؤن ہڑتال رہی اور اس دوران حکومت اور حزب مخالف کی طرف سے ایک دوسرے پر ہڑتال کو کامیاب اور ناکام بنانے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے۔

عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف پر 30 مئی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجاً ہڑتال کی کال دی تھی۔

ان جماعتوں نے صوبائی حکومت سے مستعفی ہو کر عبوری حکومت کی زیر نگرانی دوبارہ بلدیاتی انتخابات کروانے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

لیکن حکومت نے کل جماعتی کانفرنس بلا کر دھاندلی کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا اور احتجاج کرنے والی جماعتوں سے معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا کہا ہے۔

شمال مغربی صوبے سے موصولہ اطلاعات کے مطابق مختلف شہروں میں دوکانیں اور کاروباری مراکز جزوی طور پر بند رہے اور بعض علاقوں میں احتجاجی جماعتوں کے کارکنوں نے مبینہ طور پر زبردستی دکانیں بند کروانے کی بھی کوشش کی۔

تاہم عوامی نیشنل پارٹی کے ایک مرکزی رہنما میاں افتخار حسین نے الزام عائد کیا کہ حکومت پولیس کے ذریعے تاجروں کو زبردستی ان کا کاروبار کھلا رکھنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔

صوبائی وزیراطلاعات مشتاق غنی نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے ایک بار پھر ان جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔

ان تینوں جماعتوں نے حکومت کی طرف سے بلائی گئی کانفرنس میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔

30 مئی کو ہونے والے انتخابات کو صوبے میں مقامی حکومتوں کے سب سے بڑے انتخابات قرار دیا جا رہا ہے جس میں 41 ہزار سے زائد نشستوں کے لیے 84 ہزار سے زائد امیدواروں نے حصہ لیا۔

لیکن الیکشن کے دوران جہاں تشدد کے مختلف واقعات میں دو درجن سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے وہیں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں بھی دیکھنے میں آئیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف ملک کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) پر گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے تقریباً ایک سال تک سراپا احتجاج رہی اور یہ معاملہ ان دنوں سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ایک عدالتی کمیشن میں زیر تحقیق ہے۔

XS
SM
MD
LG