رسائی کے لنکس

پاکستان: 2030 تک 8,800 میگاواٹ جوہری بجلی کے حصول کے منصوبے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے مطابق 2030 تک ملک میں 340 میگاواٹ تک بجلی کی پیدوار کے چار جب کہ 1100 میگاواٹ کے سات جوہری بجلی گھر کام کرنا شروع کر دیں گے۔

پاکستان میں اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر انصر پرویز نے کہا ہے کہ حکومت نے اُن کے ادارے کو ہدایت کی ہے کہ 2030 تک جوہری توانائی کے ذریعے ملک میں بجلی کی مجموعی پیدوار کو 8,800 میگاواٹ تک بڑھایا جائے۔

ڈاکٹر انصر پرویز نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف نے حال ہی میں کراچی میں دو جوہری بجلی گھروں کا سنگ بنیاد رکھا جن سے مجموعی طور پر 2200 میگاواٹ بجلی حاصل ہو سکے گی۔

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے مطابق 2030 تک ملک میں 340 میگاواٹ تک بجلی کی پیدوار کے چار جب کہ 1100 میگاواٹ پیدوار کے سات جوہری بجلی گھر کام کرنا شروع کر دیں گے۔

اُنھوں نے بتایا کہ صوبہ پنجاب کے ضلع میانوانی میں چشمہ تین اور چشمہ چار نامی جوہری بجلی گھروں سے 2016 تک 630 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل ہو سکے گی۔

چشمہ چار پاور پلانٹ کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور اسی مناسبت سے ایک تقریب میں ڈاکٹر انصر پرویز نے پاکستان میں جوہری ٹیکنالوجی کی مدد سے بجلی کی پیدوار کے منصوبوں سے آگاہ کیا۔

فزکس کے پروفیسر اے ایچ نیئر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں لگائے جانے والے نئے جوہری بجلی گھروں کے ڈیزائنز سے متعلق معلومات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں تاہم اُن کا کہنا تھا کہ حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایسے بجلی گھر آبادیوں سے دور بنائے جائیں۔

’’مجھے اتنا معلوم ہے کہ ری ایکٹرز کے اطراف میں حادثات ہوتے ہیں اور اگر ری ایکٹرز کے اطراف میں آبادیاں ہوں تو اُن آبادیوں کو بڑے خطرات ہوتے ہیں۔ مجھے اندیشے ہیں کہ کراچی کی آبادی ان اب ان ری ایکٹرز کی جگہ سے بہت دور نہیں رہ گئی، آہستہ آہستہ وہ ان ری ایکٹرز سے سات آٹھ کلو میٹر تک پہنچ چکی ہے۔ جب کہ ری ایکٹرز ایسی جگہ پر لگائے جاتے ہیں کہ نذدیک ترین آبادی تیس کلو میٹر تک نہیں ہونی چاہیئے۔‘‘

تاہم پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر انصر کا کہنا تھا کہ ان جوہری بجلی گھروں کے تحفظ کے لیے تمام ضروری انتظامات کیے گئے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ جاپان میں زلزلے اور سونامی سے فوکوشیما جوہری پلانٹ کو پہنچنے والے نقصان کے بعد پاکستان میں نئے بجلی گھروں کے ڈیزائن میں اضافی اور ضروری حفاظتی تبدیلیاں بھی کی گئیں ہیں۔


ڈاکٹر انصر کا کہنا تھا کہ ان جوہری بجلی گھروں کے تحفظ کے لیے تمام ضروری انتظامات کیے گئے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ جاپان میں زلزلے اور سونامی سے فوکوشیما جوہری پلانٹ کو پہنچنے والے نقصان کے بعد پاکستان میں نئے بجلی گھروں کے ڈیزائن میں اضافی اور ضروری حفاظتی تبدیلیاں بھی کی گئیں ہیں۔

پاکستان کو توانائی کے شدید بحراں کا سامنا ہے اور اسی تناظر میں جوہری بجلی گھروں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اٹامک انرجی کمیشن کے مطابق پاکستان نے جوہری توانائی کے حصول کا سفر 1972 میں شروع کیا تھا۔

کراچی میں قائم نیوکلئیر پاور پلانٹ میں تجارتی آپریشنز کا آغاز 1972ء میں ہوا تھا اور اس سے 137 میگاواٹ بجلی حاصل ہوتی ہے۔

چین کے تعاون سے میانوالی کے علاقے کندیاں میں چشمہ ون اور چشمہ دوئم نامی دو بجلی گھروں سے 650 میگاواٹ بجلی حاصل ہوتی ہے۔

پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کی بغیر کسی بیرونی امداد کے دیکھ بھال، چشمہ ون اور دوئم کے کامیاب آپریشن اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پاکستان میں جوہری توانائی کے استعمال کی بنیادیں مضبوط ہیں۔

پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی اور تیل کے علاوہ اب کوئلے، ہوا اور شمسی توانائی سے بھی بجلی حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔
XS
SM
MD
LG