رسائی کے لنکس

کمر پتلی یا عملی فرائض سے دستبرداری


راولپنڈی میں زائد وزنی پولیس اہلکاروں کی شرح 77 فیصد ہے۔
راولپنڈی میں زائد وزنی پولیس اہلکاروں کی شرح 77 فیصد ہے۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں محکمہ پولیس کے ایک لاکھ 75 ہزار اہلکار ان دنوں اپنے سرکاری فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اپنی کمر اور توند کم کرنے کے لیے روزانہ باقاعدگی سے جسمانی ورزش کرنے اور پارکوں میں دوڑ لگانے جیسی سرگرمیوں میں مصروف دیکھائی دیتے ہیں۔

صوبائی انسپکڑ جنرل آف پولیس حبیب الرحمن کے احکامات کے مطابق محکمے کے تمام اہلکاروں کی جسمانی فٹنس کا جائزہ لینے کے لیے 30 جون کو ان کی کمر کی پیمائش کی جائے گی اور جن افسران کی کمر 38 انچ سے زیادہ ہوئی ان سے عملی فرائض کی ذمہ داریاں واپس لے لی جائیں گی۔

محکمے کی ترجمان نبیلہ غضنفر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ماضی میں بھی پولیس کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے ایسی اصلاحات نافذ کی گئیں تاہم ان کے بقول موجودہ انسپکٹر جنرل اس مقصد کے حصول میں انتہائی زیادہ سنجیدہ ہیں۔

’’جولائی میں ان (اہلکاروں کی کمر) کی پیمائش ہو گی اور مجموعی جائزہ لیا جائے گا جن اہلکاروں نے اپنے آپ کو چاق و چوبند کر لیا وہ عملی فرائض انجام دیتے رہیں گے جب کہ بقیہ کے بارے میں بھی فیصلہ کیا جائے گا، (ممکن ہے) اُن کو وزن کم کرنے کے لیے مزید وقت دیا جائے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ پنجاب پولیس کے پچاس فیصد سے زائد اہلکاروں کا وزن مقررہ حد سے زیادہ ہے جس کے اُن کی عملی فرائض کی انجام دہی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

’’وزن کی زیادتی اور موٹاپا عملی فرائض کی انجام دہی کے لیے مناسب نہیں، اُنھوں نے ڈاکوؤں کا تعاقب کرنا ہوتا ہے، اور بہت ذمہ داریاں ہوتی ہیں اُس میں یہ (عوامل) رکاوٹ بنتے ہیں ... اسی طرح ہمارے افسران اور اہلکار جسمانی طور پر جتنے چست ہوں گے اُن کی کارکردگی اُتنی ہی بہتر ہو گی۔‘‘

پولیس کی ترجمان نبیلہ غضنفر نے اعتراف کیا کہ محکمے میں اہلکاروں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے عملی فرائض انجام دینے والے ہر افسر کو کئی کئی افراد کا کام کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے انھیں اپنی جسمانی فٹنس پر توجہ دینے میں مشکلات پیش آتی ہیں مگر انھوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے پولیس ڈپارٹمنٹ نے ورزش کی سہولتیں بہم فراہم کر رکھی ہیں۔

مقامی میڈیا کے مطابق راولپنڈی میں زائد وزنی پولیس اہلکاروں کی شرح 77 فیصد ہے۔ سرکاری احکامات کے مطابق موٹاپے کا شکار پولیس افسران و اہلکاروں کو یکم جولائی کے بعد کسی عملی ڈیوٹی پر تعینات نہیں کیا جائے گا۔

پاکستان میں گزشتہ دس برس سے اپنی سرزمین پر دہشت گرد عناصر کے خلاف بر سر پیکار ہے اور کئی علاقوں میں فوجی آپریشن بھی جاری ہیں مگر اعلٰی فوجی حکام کا ماننا ہے کہ پولیس کے محکمے کی کارکردگی کو بہتر کرنا ناگزیر ہے کیونکہ کسی بھی علاقے میں انسداد دہشت گردی کے کامیاب آپریشن کے بعد وہاں کا انتظام سول انتظامیہ ہی موثر انداز میں چلا سکتی ہے جس میں پولیس کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔

XS
SM
MD
LG