رسائی کے لنکس

سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں: پاکستانی فوج


میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ
میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ

ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ فوج ملک میں آئین و جمہوریت کی حمایت اور اس کے تسلسل کے اپنے موقف پر قائم ہے۔ "یہ میں واضح طور پر بتا دوں کہ جو بھی سیاسی سرگرمی ہے اس کے ساتھ فوج کا کوئی تعلق نہیں، میں اس کو پہلے بھی مسترد کر چکا ہوں۔‘‘

پاکستان کی فوج نے کہا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی سے اُس کا کوئی تعلق نہیں اور اس بارے میں کی جانے والی قیاس آرائیاں غلط اور افسوسناک ہیں۔

تقریباً ایک ماہ سے حکومت مخالف پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں پارلیمان کے سامنے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

حکومت اور دیگر پارلیمانی جماعتیں اس مطالبے کو مسترد کر چکی ہیں جب کہ احتجاجی جماعتوں کے ساتھ مذاکراتی عمل بھی اب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔

مختلف حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی تھیں کہ اس سارے معاملے کے پیچھے مبینہ طور پر فوج کا کوئی عمل دخل ہے۔

لیکن جمعہ کو فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک پریس کانفرنس میں اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فوج ملک میں آئین و جمہوریت کی حمایت اور اس کے تسلسل کے اپنے موقف پر قائم ہے۔

"یہ میں واضح طور پر بتا دوں کہ جو بھی سیاسی سرگرمی ہے اس کے ساتھ فوج کا کوئی تعلق نہیں، میں اس کو پہلے بھی مسترد کر چکا ہوں۔۔۔ ابھی جو کور کمانڈرز کی میٹنگ ہوئی تھی اس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں بھی کہا گیا تھا کہ فوج جمہوریت کی حمایت کرتی ہے۔"

سیاسی کشیدگی میں ایک موقع پر حکومت کی طرف سے اس معاملے میں فوج کو سہولت کار بننے کا کہا گیا تھا جس کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری نے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات بھی کی تھی۔

اس بارے میں فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد یہی تھا کہ فریقین کو ایک جگہ بٹھایا جائے تاکہ وہ اس معاملے کا حل نکال سکیں۔

"شروع سے فوج کا موقف رہا کہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے اسے سیاسی طور پر ہی حل کیا جائے اور فوج کو اس سے باہر رکھا جائے۔ فریقین کو ایک جگہ بٹھانا تھا اس کے لیے جو کردار دیا گیا اسے اسی طرح نبھایا گیا۔۔۔ مسئلہ جب بھی حل ہونا ہے وہ سیاسی جماعتوں نے ہی بیٹھ کر حل کرنا ہے وہ کس طرح حل ہونا ہے یا کس حل پر پہنچنا ہے وہ اُن کی صوابدید ہے۔"

حکومتی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ احتجاجی دھرنوں کی وجہ سے پاکستانی معیشت متاثر ہو رہی ہے لہذا انھیں جلد ختم ہونا چاہیئے لیکن دونوں جانب سے ہونے والی بات چیت اور بیان بازیوں کی وجہ سے یہ معاملہ فوری طور پر حل ہوتا نظر نہیں آتا۔

عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ ہفتہ کے روز دھرنے کا ایک مہینہ پورے ہونے پر ان کے کارکن زیادہ سے زیادہ تعداد میں پارلیمان کے سامنے جمع ہوں۔

حکومت نے آئین کے شق 245 کے تحت مقامی انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو بھی اسلام آباد میں طلب کر رکھا ہے لیکن ان کے ذمے حساس تنصیبات اور عمارتوں کی حفاظت ہے۔

فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ ملک میں جب بھی کچھ ہوتا ہے فوج اس بارے میں متفکر ضرور ہوتی ہے لیکن ان کے بقول وہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے وضع کردہ حکمت عملی کے تحت اپنا کردار ادا کرتی ہے۔

XS
SM
MD
LG