رسائی کے لنکس

اسلام آباد میں مسلم لیگ نون کا حکومت مخالف مظاہرہ


اپوزیشن مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ چند ماہ سے حکمران پیپلز پارٹی کے خلاف پارلیمان میں ہنگامہ آرائی کے عِلاوہ عوامی جلسوں کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے، مگر اس احتجاج نے پیر کو اُس وقت ایک نیا رخ اختیار کر لیا جب مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے ایوان صدرِ کی جانب بڑھنے کی کوشش کی۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان اور دیگر راہنماؤں کی قیادت میں نکالی گئی ریلی جیسے ہی ایوانِ صدر کو جانے والے راستے پرپہنچی تو پولیس کی بھاری نفری نے اسے آگے بڑھنے سے روک دیا جس کے باعث مظاہرین اور اہلکاروں میں ہاتھا پائی بھی ہوئی۔

اس موقع پر چودھری نثار نے پیپلز پارٹی کو روایتی انداز میں کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے موجودہ حکومت پر قومی مسائل اور عوام کی مشکلات کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا۔

’’یا عوام کی جو مشکلات ہیں اُن کا احساس کرو، عدلیہ کے فیصلے کی پابندی کرو ورنہ عوام کی طرف سے احتساب کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘

مسلم لیگ (ن) کے اراکینِ پارلیمان نے قومی اسمبلی میں جاری بجٹ اجلاس کا بھی بائیکاٹ کیا۔

حکمران پیپلز پارٹی اپوزیشن جماعت کی احتجاجی مہم کی شدید مذمت کرتی ہے اور مشیر داخلہ رحمٰن ملک نے پیر کو کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کی آئے روز لاہور میں حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

’’جو اُنھوں نے کام شروع کیا ہوا ہے کہ 10، 15 افراد لے آتے ہیں ڈھول بجاتے ہیں اور آگے چلتے ہیں ... ایسا کرنا وفاق کے خلاف بغاوت ہے، آپ (شہباز شریف) وہ کام کر رہے ہیں جو کبھی کسی نے نہیں کیا۔‘‘

ایک روز قبل وزیرِ اعظم ہوصف رضا گیلانی نے بھی یکم جون کو قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کی ہنگامہ آرائی پر افسوس کرتے ہوئے اپوزیشن راہنماؤں کو اپنے تحفظات کا اظہار پارلیمانی انداز میں کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

اُن کے بیان پر چودھری نثار علی خان نے پیر کو اپنے ردعمل میں کہا کہ ’’ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم اسمبلی میں کھڑے ہو کر تقریریں کیوں نہیں کرتے، ہم نے پچھلے ساڑھے چار برسوں میں تقریریں بھی کی ہیں مشورے بھی دیے ہیں، حکومت کو راہ راست پر لانے کی کوشش بھی کی ہے ... (اب) پاکستان مسلم لیگ (ن) ایئر کنڈیشنڈ ہال سے باہر اس لیے نکل آئی ہے کہ ہم اب پاکستان کے عوام کی جنگ اس کے گلی کوچوں میں، اس گرمی میں لڑیں گے۔‘‘

ناقدین کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی ایک دوسرے کے خلاف مسلسل زور پکڑتی تنقیدی مہم کا بنیادی مقصد آئندہ انتخابات میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے عوام کی حمایت حاصل کرنا ہے۔

XS
SM
MD
LG