رسائی کے لنکس

نواز انتظامیہ عمران خان سے معاملات طے کرنے کو بظاہر تیار


عمران خان آئندہ ماہ اسلام آباد میں ایک بڑے جلسے کا اعلان کر چکے ہیں۔
عمران خان آئندہ ماہ اسلام آباد میں ایک بڑے جلسے کا اعلان کر چکے ہیں۔

سیاسی و دفاعی تجزیہ نگار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ اگر موجودہ سیاسی صورتحال میں بہتری کے لیے اقدامات نا کیے گئے تو حالات بگڑ سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس ناصرالملک کا سبکدوش ہونے والے اپنے پیش رو کے اعزاز میں فل کورٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عدالت کے فرائض میں آئین کے تحت اختیارات کی تقسیم کا احترام کروانا بھی شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں بہتر گورننس تمام ریاستی ادارے کے اپنی حدود میں کام کرنے ہی سے ممکن ہے اور جہاں بے جا مداخلت ہوگی عوام کے حقوق کی خلاف ورزی اور انہیں نظرانداز کیا جائے گا وہاں عدالت کا کام معاشرے میں ایک توازن پیدا کرنا، قوانین کی تشریح اور ان قوانین کا نفاذ ہے۔

جسٹس ناصرالملک کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب پاکستان تحریک انصاف، ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی تحریک اور چند دیگر سیاسی جماعتوں کی اعلان کردہ احتجاجی ریلی کو لے کر مقامی میڈیا میں موجودہ حکومت اور جمہوری نظام کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں ہورہی ہیں۔ قومی اسمبلی میں دوسری بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ عمران خان نواز انتظامیہ کے خلاف کسی غیر جمہوری انداز کا حصہ بننے کے امکانات کو رد کر چکے ہیں۔

تاہم دوسری جانب وزرا اور حکومت میں شامل عہدیدار مسلسل پریس بریفنگز اور ٹی وی شوز میں آئندہ ماہ عمران خان، طاہرالقادری اور ان کے اتحادی سیاست دانوں کی اعلان کردہ احتجاجی ریلی کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی ترجمان سینیٹر مشاہد اللہ خان نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے گزشتہ انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات اور لاہور میں پولیس فائرنگ سے ایک درجن سیاسی کارکنوں کی ہلاکت پر وزیراعلیٰ پنجاب کے استعفے کو نا جائز اور نا قابل عمل قرار دیا۔

’’یہ دونوں شعوری یا لاشعوری طور پر پاکستان کے خلاف ضرور استعمال ہورہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ ورنہ یہ کوئی طریقہ ہے کہ سال، سوا سال پہلے ایک لانگ مارچ کیا اور اب پھر آ گئے ہیں۔ دھاندلی ہوئی ہے تو پھر چاروں صوبوں میں ہوئی ہے اس کی تو بات ہی نہیں کرتے۔ صرف شریف برادان کو نشانہ اور ان کے ہاتھ روکے جارہے ہیں۔‘‘

تاہم مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت اب بھی تحریک انصاف کے تحفظ کو دور کرنے کے لیے مذاکرات کو تیار ہے۔

جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے 37 سال مکمل ہونے پر پاکستان پیپلز پارٹی نے ہفتہ کو یوم سیاہ منایا اور حزب اختلاف کی پارلیمان میں سب سے بڑی جماعت کے مرکزی رہنما میاں رضا ربانی نے جمہوری نظام کی بھر پور حمایت کی یقین دہانی کروائی۔

’’جہوری عمل کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ (حزب مخالف) اس بار وفاق پاکستان سے کھیل رہے ہیں نا کہ صرف آئین پاکستان سے۔‘‘

سیاسی و دفاعی تجزیہ نگار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ اگر موجودہ سیاسی صورتحال میں بہتری کے لیے اقدامات نا کیے گئے تو حالات بگڑ سکتے ہیں۔

’’ان سے لاہور ماڈل ٹاؤن والی بڑی غلطی ہوئی۔ اس سے اندورنی اختلاف بھی پیدا ہوا۔ اس سے پہلے تو دو بھائی اور چند بیوروکریٹس حکومت کررہے تھے۔ اس میں دراڑ پیدا ہوتی ہے تو نعمل بدل کوئی نہیں۔ پھر کہہ رہے ہیں فوج کو بلائیں گے۔ یہ پولیٹیکل آڈر اب چل نہیں سکتا۔ نواز شریف کو اپنی کابینہ اور پنجاب میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔‘‘

وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ایک خط لکھ کر انتخابی اصلاحات متعارف کروانے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا کہہ رکھا ہے۔

XS
SM
MD
LG